سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے چیف آف سٹاف غلام حسین اسماعیلی کا کہنا ہے کہ دوران پرواز صدارتی ہیلی کاپٹر درمیان سے اچانک غائب ہوگیا تھا۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران نیوز نیٹ ورک (آئی آر آئی این این) پر 21 مئی 2024 کو ایک انٹرویو کے دوران 19 مئی کو پیش آنے والے ہیلی کاپٹر حادثے سے چند لمحے قبل کی تفصیلات بتائی ہیں۔
اس حادثے کے نتیجے میں صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبے کے گورنر مالک رحمتی، مشرقی آذربائیجان صوبے میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے آیت اللہ محمد علی آل ہاشم سمیت دیگر افراد چل بسے۔
غلام حسین اسماعیلی نے سرکاری ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران کے علاقے ورزقان کا موسم، جہاں صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوا، شروع میں زیادہ تر پرواز کے دوران بالکل ٹھیک رہا تھا۔
اسماعیلی ان تین ہیلی کاپٹروں میں سے ایک میں سوار تھے، جو جمہوریہ آذربائیجان کے ساتھ ایران کی سرحد پر ایک ڈیم کی افتتاحی تقریب سے واپس آ رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں نے 19 مئی کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے اڑان بھری تھی جبکہ علاقے میں موسم معمول کے مطابق تھا۔
پرواز کے 45 منٹ بعد صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ جو قافلے کے انچارج تھے، نے قریبی بادلوں سے بچنے کے لیے دیگر ہیلی کاپٹروں کو اونچائی بڑھانے کا حکم دیا۔
تاہم صدر کا ہیلی کاپٹر، جو دیگر دو ہیلی کاپٹروں کے درمیان پرواز کر رہا تھا، اچانک غائب ہو گیا۔
اسماعیلی کا کہنا تھا کہ بادلوں کے اوپر پرواز کرنے کے 30 سیکنڈ بعد ہمارے پائلٹ نے دیکھا کہ درمیان میں موجود ہیلی کاپٹر غائب ہو گیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس پائلٹ نے صدر کے ہیلی کاپٹر کی تلاش کے لیے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔
اسماعیلی نے کہا کہ ریڈیو ڈیوائسز کے ذریعے صدر کے ہیلی کاپٹر سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششوں کے بعد اور بادلوں کی وجہ سے اونچائی کم نہ کر سکنے کی وجہ سے ان کے ہیلی کاپٹر نے اپنی پرواز جاری رکھی اور قریبی تانبے کی کان پر اترا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ امیر عبداللہیان اور صدر کے پروٹیکشن یونٹ کے سربراہ نے اس کے بعد بار بار کال کا جواب نہیں دیا۔
تاہم عہدیدار نے بتایا کہ دو دیگر ہیلی کاپٹروں کے پائلٹوں نے کیپٹن مصطفوی سے رابطہ کیا تھا، جو صدر کے ہیلی کاپٹر کے انچارج تھے لیکن جنہوں نے کال اٹھائی وہ تبریز میں نماز جمعہ کے امام محمد علی الہاشم تھے، جن کی حالت ٹھیک نہیں تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹر ایک وادی میں گر کر تباہ ہوا ہے۔
دوسرا رابطہ اسماعیلی نے خود الہاشم سے کیا اور انہیں بھی صورت حال کے بارے میں وہی جوابات ملے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ہم نے واقعے کی جگہ کا پتہ لگایا تو لاشوں کی حالت سے پتہ چلا کہ ابراہیم رئیسی اور دیگر ساتھی فوری طور پر چل بسے تھے لیکن علی الہاشم کئی گھنٹوں کے بعد فوت ہوئے۔
ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف محمد باقری نے اس ہیلی کاپٹر حادثے کی وجوہات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
اے ایف پی نے ایرانی نیوز ایجنسی اسنا کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ محمد باقری نے پیر کو ’اعلیٰ سطح کی ایک کمیٹی کو صدر کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کی وجوہات کی تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیا۔‘