ایران کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف نے رواں ہفتے سابق صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی ابتدائی رپورٹ جمعرات کو جاری کر دی، جس میں کسی قسم کی ’تخریبی کارروائی‘ کے تاثر کو مسترد کیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں بلندی سے ٹکرانے کے بعد آگ لگ گئی تاہم اس دعوے کی وجہ نہیں بتائی گئی اور اس رپورٹ کے دعوے کے مطابق یہ بھی واضح نہیں کہ ہیلی کاپٹر بلندی سے کیوں ٹکرایا۔
رپورٹ کے مطابق ہیلی کاپٹر کی باقیات سے گولیاں لگنے یا کسی تخریبی کاروائی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر مقررہ راستے سے نہیں ہٹا اور جس ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا اس کے پائلٹ نے حادثے سے ڈیڑھ منٹ قبل دو دیگر ہیلی کاپٹرز سے رابطہ کیا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واچ ٹاور کی ہیلی کاپٹر کے عملے کے ساتھ گفتگو میں بھی کوئی مشکوک مواد سامنے نہیں آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے آخر میں کہا گیا کہ کچھ حصوں اور دستاویزات کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے گذشتہ بیانات کی طرح اس رپورٹ میں بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا ملبہ ایرانی ڈرونز کے ذریعے ملا تھا۔
اس رپورٹ میں تبریز کی مسجد کے امام محمد علی الہاشم کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے دعوے کا ذکر نہیں کیا گیا، جس کا ذکر ابراہیم رئیسی کے چیف آف سٹاف غلام حسین اسماعیلی نے کیا تھا اور جن کا کہنا تھا کہ وہ حادثے کے تین یا چار گھنٹے بعد تک الحاشم کے ساتھ رابطے میں تھے۔
اس کے علاوہ پرواز کے دوران موسم کی صورت حال کے بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں ہیں۔
ایران میں کچھ حکام اور میڈیا کا دعویٰ ہے کہ موسم پرواز کے لیے سازگار نہیں تھا جبکہ کچھ دیگر حکام جیسا کہ غلام حسین اسماعیلی نے دوران پرواز آسمان صاف ہونے کی اطلاع دی ہے۔
ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھیوں بشمول سابق وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر اتوار 19 مئی کو دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب ایران کے شمال مغرب میں لاپتہ ہوا تھا اور تقریباً 18 گھنٹوں کی تلاش کے بعد اس کا ملبہ اور لاشیں ملی تھیں، جو زیادہ تر ناقابل شناخت تھیں۔