ایک المناک حادثے میں گذشتہ ہفتے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی اچانک موت نے ایرانی حکومت کو صدمے سے دوچار کر دیا۔ رئیسی کا انتقال نہ صرف اس لیے نتائج کا حامل ہے کہ اس سے ایران کے لیے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اہم وقت میں اہم قیادت کا عہدہ خالی ہو گیا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ انہوں نے ہمسایہ عرب ممالک سمیت روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ رئیسی کو علی خامنہ ای کے بعد کے دور میں حکومت کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نہ ہونے سے بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے اور کوئی اور شخصیت ان کی جگہ لینے کی اہل دکھائی نہیں دیتی، جس کی وجہ سے حکومت کے مستقبل کے معاملے میں ابہام اور متعدد ممکنہ حالات پیدا ہو گئے ہیں۔
اس طرح نئے صدر کا انتخاب انتہائی پیچیدہ اور حساس عمل بن گیا ہے۔ یہ صرف صدارتی نشست کو پر کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ حکومت کے مجموعی مستقبل اور اسلامی فقیہ (ولایت فقیہ) نظام کی سرپرستی سے بھی متعلق ہے۔ ایران کے داخلی معاملات کا استحکام اور اس کی خارجہ پالیسیوں کا توازن داؤ پر لگا ہوا ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ حکومت اپنی بقا کو یقینی بنانے اور اپنے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کس راستے کا انتخاب کرے گی؟
ایک امکان یہ ہے کہ رئیسی کی اچانک موت حکومت کو اس بات پر مجبور کرے گی کہ وہ کسی ایسی شخصیت کو صدارتی نشست پر مقرر کرے جو ان سے بھی زیادہ انتہا پسندانہ رجحانات رکھتی ہو۔
یہ عمل 2020 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سے حکومت کی واضح حکمت عملی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، جو تمام اداروں اور فیصلہ سازی کے عہدوں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد سخت گیر افراد پر انحصار کرتی رہی ہے اور کمزور وفاداری والے لوگوں کو نظرانداز کرتی ہے، چاہے وہ حکومت کا حصہ ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ رجحان لاریجانی برادران جیسی شخصیات کو ہٹانے اور حسن روحانی کو ماہرین کی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے سے واضح ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان حالات کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ اس وقت جن قابل اعتماد ناموں پر غور کیا جا رہا ہے وہ سب اپنی سخت گیر ساکھ دکھانے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ رئیسی کے مستحکم کردار کو نبھانے کے قابل کوئی بڑی شخصیت موجود نہیں۔
رئیسی کے جانشین کا انتخاب حکومت کے اندر مختلف طاقت کے مراکز کے مختلف مفادات سے متاثر ہوسکتا ہے۔ یہ صورت حال سپریم لیڈر کے عہدے کے لیے عزائم کو بڑھاوا دے سکتی ہے اور پاسداران انقلاب سے وابستہ سخت گیر افراد کے حوالے سے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انتہائی سخت گیر تحریک سے وابستہ سخت گیر شخصیت کے عہدہ صدارت پر فائز ہونے سے پورے ایران میں نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔ داخلی طور پر، حکومت ممکنہ طور پر بڑھتے ہوئے حزب اختلاف کے گروپوں کے بارے میں کم روادار ہو جائے گی اور سماجی کنٹرول کے اقدامات میں زیادہ سخت ہو جائے گی، جس سے معاشرے کے ساتھ تصادم بڑھے گا اور حکومت اور عوام کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوگا۔
اس سے معاشی بحران میں اضافہ ہو سکتا ہے، حالات زندگی خراب ہو سکتے ہیں اور کسی منصوبہ بندی کے بغیر مظاہرے ہو سکتے ہیں، جس سے حکومت داخلی قانونی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔
خارجہ سطح پر اس طرح کی سخت گیر تبدیلی کے نتیجے میں ہمسایہ ممالک کے بارے میں ایران کی پالیسی مزید محاذ آرائی پر مبنی ہو سکتی ہے، جس سے ممکنہ طور پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی جیسی حالیہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس نے ایران کے مسائل اور بحرانوں کو کم کرنے کی راہیں کھول دی تھیں۔
یہ تبدیلی بیرونی قوتوں کو مواقع فراہم کر سکتی ہے جو حکومت کو غیر مستحکم کرنا یا دباؤ میں لانا چاہتی ہیں۔ ایرانی حکومت کا سخت گیر مؤقف جوہری مسئلے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سخت گیر عناصر کی جانب سے ایران کے جوہری نظریے کو تبدیل کرنے کے بڑھتے ہوئے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔
یہ صورت حال امریکہ اور مغرب کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بن سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر ایران کو مہنگے تنازعے میں گھسیٹ سکتا ہے۔
ایک اور امکان یہ ہے کہ ایرانی حکومت اصلاح پسندوں اور اعتدال پسندوں کو جون میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے سکتی ہے تاکہ دوڑ کو زیادہ مسابقتی بنایا جا سکے۔
اس اقدام کا مقصد سیاسی تناؤ کو کم کرنا اور ٹرن آؤٹ بڑھانا ہے، جو حالیہ انتخابات میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گیا، خاص طور پر گذشتہ مارچ کے پارلیمانی انتخابات میں، جہاں ٹرن آؤٹ 1979 کے انقلاب کے بعد سے سب سے کم تھا۔
تاہم یہ نقطہ نظر اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے کی سخت گیر افراد کی حکمت عملی کو چیلنج کرے گا، یعنی ایک ایسی سمت جس کی خامنہ ای ممکنہ طور پر حمایت نہیں کرتے۔
فیصلہ سازی کے تمام عہدوں سے اصلاح پسندوں اور اعتدال پسندوں کو کامیابی کے ساتھ نظر انداز کرنے والے سخت گیر لوگ ممکنہ طور پر ان گروہوں کو سیاسی زندگی میں دوبارہ متعارف کروانے کی کسی بھی کوشش میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سخت محنت کریں گے، بھلے ہی ان کی شرکت صرف دوسرے حریفوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے تک محدود ہو۔
سب سے زیادہ امکان یہ ہے کہ حکومت ایک ایسے امیدوار کو تعینات کرے گی جو رئیسی کی پالیسیوں کو جاری رکھے گا۔ رئیسی کے دور میں ایران نے طویل عرصے سے جاری اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے محدود داخلی اثرات کے باوجود بین الاقوامی سطح پر نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
رئیسی کے مشرق کی طرف رخ کرنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی، جیسے سعودی عرب کے ساتھ تاریخی معاہدے نے ایران کے خارجہ تعلقات کو متحرک کیا۔ اگرچہ رئیسی کا نقطہ نظر مغرب کے ساتھ ٹکراؤ پر مبنی نہیں تھا لیکن پابندیوں کو کم کرنے کی کوششیں کی گئیں جس میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
ایران نے اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی کے بعد دفاع کا توازن برقرار رکھنے میں بھی کامیابی حاصل کی جبکہ امریکہ کے ساتھ رابطے کے ذریعے علاقائی جنگ سے گریز کیا۔ یہاں تک کہ جوہری مسئلے پر بھی ایران، عمان کی ثالثی میں امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں مصروف رہا۔
اس پالیسی کو جاری رکھنے سے حکومت کی بیرونی کامیابیوں کو برقرار رکھنے اور ممکنہ طور پر اس کی داخلی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
نظریے اور حقیقت پسندی کا امتزاج رکھنے والا یہ درمیانی راستہ، جسے رئیسی نے اپنایا، سات اکتوبر 2023 کے بعد سے کشیدہ بین الاقوامی اور علاقائی صورت حال سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس پالیسی کو جاری رکھنے سے اندرونی طور پر ایران کے مفادات کو فائدہ پہنچے گا جہاں بگڑتے ہوئے معاشی حالات اور آزادیوں کو دبانے کی وجہ سے نمایاں تناؤ ہے۔
خارجہ سطح پر ضروری ہے کہ ایران ایک متوازن پالیسی پر عمل کرے جو علاقائی اور بین الاقوامی دونوں جگہ اس کی تنہائی کم کرے۔
لہٰذا آئندہ صدارتی انتخاب میں محتاط اندازے شامل ہوں گے تاکہ ایسے نتائج مرتب کیے جا سکیں جو ایک قابل اعتماد، کرشماتی اور صحیح امیدوار کو یقینی بنا سکیں جو ایرانی مفادات کی خدمت کر سکے۔ یہ امیدوار حکومت کی طرف سے طے کردہ عمومی راستے کو جاری رکھے گا، جس راستے کو سابق صدر رئیسی نے نمایاں شکل دی۔
اگرچہ ایرانی حکومت رئیسی کی موت سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو سنبھال سکتی ہے، لیکن سب سے بڑا چیلنج خامنہ ای کی جانشینی ہے۔
مختلف تجزیے اس بات پر متفق ہیں کہ خامنہ ای کے بعد اقتدار کی آسانی سے منتقلی کو یقینی بنانے میں رئیسی نے اہم کردار ادا کیا، چاہے وہ ان کے اپنے لیے ہو یا ثالث کے طور پر۔ رئیسی کے نہ ہونے سے بڑا خلا پیدا ہوا ہے جسے بھرنا مشکل ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔