’وعدہ ہے بیک روم ڈیل سے نہیں آئیں گے‘: ’عوام پاکستان‘ کے سیکریٹری مفتاح اسماعیل

پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے بعد ایک اور سیاسی جماعت ’عوام پاکستان‘ کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے رہنماؤں میں ایک سابق وزیراعظم سمیت کئی سابق وزرا شامل ہیں۔

پاکستان کے سیاسی افق پر نمودار ہونے والی نئی سیاسی جماعت ’عوام پاکستان‘ کے مرکزی سیکریٹری جنرل مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ووٹوں سے (اقتدار میں) آئیں گے، کسی کی ’بیک روم ڈیل‘ سے نہیں آئیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’ہمارا (پاکستان کا) نظام صرف اشرافیہ کے لیے چلتا ہے۔ اشرافیہ شکاری ہیں اور عام عوام اس کا شکار۔ ہم نے اس نظام کو بدلنا ہے۔ ہماری دو قابل ذکر چیزیں ہیں: ایک ہر پاکستانی کو آگے لے کر آنا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، مسلمان ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ سب کو آگے لے کر آنا ہے۔

’دوسرا سب کو تعلیم اور صحت کے یکساں مواقعے دیں گے۔ ہر نوجوان کو اپنی مرضی کا اختیار دینا ہے۔‘

پاکستان میں فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد ایک اور سیاسی جماعت ’عوام پاکستان‘ کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا گیا، جس کے رہنماؤں میں ایک سابق وزیراعظم سمیت کئی سابق وزرا شامل ہیں۔

 سیاسی جماعت کی لانچنگ کا باقاعدہ اعلان بانی اراکین کے ساتھ جولائی کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے، جب کہ پارٹی کی بنیاد مسلم لیگ ن کے دو سابق رہنماؤں بشمول سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے رکھی ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ عوام پاکستان میں دوسری سیاسی جماعتوں سے کئی سیاست دان آئے ہیں تو ایسی کون سی تبدیلی تھی جو یہ سیاست دان اپنی پہلی پارٹیوں میں نہیں کر سکے اور اب نئی جماعت میں کر پائیں گے؟

اس سوال کے جواب میں مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’(ان کی جماعت میں) صرف پرانے لوگ نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر لوگ نئے چہرے ہیں، جو زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 19 لوگوں کی بنیادی ٹیم میں پانچ سیاست دان ہیں جبکہ 14 کا سیاست سے پہلے کوئی تعلق نہیں رہا۔‘

عمران خان کی حکومت میں وفاقی وزیر صحت رہنے والے اور اب عوام پاکستان جماعت کے رہنما ڈاکٹر ظفر مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ چھ جولائی کو اسلام آباد میں جماعت کو باقاعدہ لانچ کیا جائے گا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلیفون پر گفتگو میں ’عوام پاکستان‘ میں شامل ہونے کی تصدیق کی۔   

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ ’نئی سیاسی جماعت بنانے کی سوچ اس لیے آئی کہ ملک میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور ملک میں جدت متعارف کرانے میں ناکام ہو چکی ہیں۔

’ان جماعتوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اس لیے یہ سوچا کہ نوجوان نسل اور خواتین کے حقوق کو سامنے رکھتے اور جدت اپناتے ہوئے ایک ایسی جماعت بنائی جائے جو خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کرے اور نوجوان نسل، جو مایوس ہو چکی ہے، کے لیے بھی مواقع  پیدا کر سکے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ابھی جماعت کی 17 رکنی آگنائزنگ کمیٹی بنائی ہے تاہم جماعت کی باضابطہ رکنیت اوپن نہیں کی، جو ہم خیال لوگ ہیں وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں۔

’ہم نئی سیاسی جماعت کا طریقہ کار بھی متعارف کرائیں گے جو صرف الزام تراشی کی سیاست نہیں کرے گی بلکہ مسائل کے حل کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کو معیوب نہیں سمجھے گی کیونکہ سیاست بات چیت اور مذاکرات کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘

نئی سیاسی قوت میں شمولیت سے متعلق مصطفی نواز کھوکھر کا نام بھی گردش کر رہا تھا لیکن انہوں نے ایکس اکاؤنٹ میں اس کی تردید کی ہے۔

 اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے کئی اور سابق رہنما بشمول سردار مہتاب عباسی اور جاوید عباسی، تحریک انصاف کے ڈاکٹر ظفر مرزا اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما شیخ صلاح الدین بھی اس نئی جماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔

عوام پاکستان کی آرگنائزنگ کمیٹی میں چار خواتین بھی شامل ہیں جن کا اس سے قبل کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رہا، جب کہ باقی مختلف سیاسی جماعتوں کے تجربہ کار سیاست دان ہیں، جن میں سے زیادہ ماضی میں ن لیگ سے منسلک رہے ہیں۔ 

ایم کیو ایم کے سابق رہنما شیخ صلاالدین، جو اب ’عوام پاکستان‘ کا حصہ ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’گذشتہ ایک سال سے اس آئیڈیا پر کام ہو رہا تھا جبکہ میں نے ابھی تین ماہ پہلے شمولیت اختیار کی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ معتبر سیاسی شخصیات سے بھی جماعت میں شمولیت کے لیے رابطے اور ملاقاتیں جاری ہیں لیکن نام حتمی ہونے پر ہی بتا سکتا ہوں۔‘

ان کے مطابق: ’کچھ شخصیات نے کہا ہے کہ آپ پہلے جماعت لانچ کر لیں ہم پھر بعد میں شامل ہو جائیں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ایچ ای سی چئیرپرسن ڈاکٹر طارق بنوری، فیصل آباد سے سابق رکن قومی اسمبلی رانا زاہد توفیق، پنجاب کے سابق صوبائی وزیر ضعیم قادری، معروف جرنلسٹ معیز جعفری، ایڈووکیٹ ڈاکٹر طارق چیمہ، عمیر اللہ اور سمیرا خان بھی آرگنائزنگ کمیٹی کا حصہ ہیں۔‘

ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق: ’شاہد خاقان عباسی جماعت کے کنوینر جبکہ مفتاح اسماعیل سیکرٹری ہوں گے۔

مفتاح اسماعیل نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے نئی جماعت کا جھنڈا اور مقاصد کی وڈیو بھی نشر کی ہے جس میں عوامی مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔

’ان کا نعرہ ہے عوام پاکستان، بدلیں گے نظام۔ جبکہ جھنڈا نیلے اور سبز رنگ کے امتزاج کا ہے۔‘

 ڈاکٹر ظفر مرزا سے جب سوال پوچھا گیا کہ نیلا اور سبز امتزاج کس چیز کی نشاندہی کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’یہ نیلا رنگ آسمان کی لیے اور سبز رنگ زمین کے لیے ہے۔‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2023 میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی جاری کی گئی فہرست میں 175 سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔  

اراکین پارلیمان نئی سیاسی جماعت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے سامنے سوال رکھا کہ ’مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی کی عوام پاکستان پارٹی کے پاکستانی سیاست پر کیسے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟‘

کچھ اراکین نے نئی جماعت کو ’گڈ لک‘ کہا جب کہ کچھ نے ’جمہوریت کے لیے اچھا اضافہ‘ قرار دیا اور بعض نے اس کا فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑنے کا انتخاب کیا۔  

سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’دیکھنا ہو گا کہ نئی سیاسی جماعت کا کتنا اثر آتا ہے۔ یہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کا سیاسی حق ہے کہ وہ پاکستان کی عوام کو ایک انتخاب دیں، پارلیمانی جمہوری نظام میں ایک اور سیاسی جماعت کا اضافہ ہو گا۔ دیکھتے ہیں عوام کا ردعمل کیا ہو گا۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شہلا رضا نے کہا کہ ’پاکستان میں جو سیاسی نظام بدحالی کا شکار ہو رہا ہے اس میں ایک سیاسی جماعت کا اضافہ اچھی بات ہے۔ سیاسی جماعتیں اچھے نظریے کے ساتھ آنا چاہیے تاکہ لوگوں میں سیاسی شعور پیدا ہو۔‘

پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سلیم مانڈی والانے کہا کہ اچھا ہے جتنی سیاسی جماعتیں ہوں وہ جمہوریت کے لیے اچھی ہیں۔

’میرے دو دوست شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اسے لیڈ کر رہے ہیں۔ ان کے لیے نیک جذبات ہیں کہ یہ جماعت آگے بڑھے اور پاکستان کے لیے کام کرے۔‘

پیپلز پارٹی کی ایک اور رکن اسمبلی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ نئی جماعت کا اثر ہو گا لیکن جمہوریت ہے جتنی سیاسی جماعتیں میدان میں آئیں اچھا ہے۔ لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کوئی بڑی ہلچل نہیں مچے گی۔‘

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی خواجہ اظہار الحسن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں 200 کے قریب سیاسی جماعتیں ہیں، جو الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں سے کتنی اثر انداز ہوئی ہیں یہ تووقت کے ساتھ ہی پتا چلے گا۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ نئی جماعت بنے، نئے منشور اور نئے لوگوں کے ساتھ بنے نوجوانوں کو آگے لائے۔ نئی سیاسی جماعت پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے بنے اگر صرف تجرباتی جماعتیں بنانی ہیں تو پھر پاکستان کا مقدر کبھی تبدیل نہیں ہو گا۔‘

 پاکستان تحریک انصاف (سنی اتحاد کونسل) کی رکن اسمبلی زرتاج گل نے کہا کہ ’اگر ان کو عام انتخابات سے پہلے لانچ کیا جاتا تو پھر شاید میں اس پر کوئی رائے دیتی۔ لیکن دیکھتے ہیں کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے لیکن یہ ان کا جمہوری حق ہے۔‘ 

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اس نئی سیاسی جماعت کا کوئی خاص اثر ہو گا لیکن اس کا اخلاقی اثر پاکستان مسلم لیگ ن پر ہو گا کیونکہ نئی جماعت میں اکثریت ن لیگ کے سابق رہنماؤں کی ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی بیرسٹر دانیال چوہدری نے کہا کہ ’جو حالات چل رہے ہیں اس میں تو نہیں لگتا کہ اس سیاسی جماعت کے کوئی اثرات ہوں گے۔

’ابھی جو حکومتی عمل چل رہا ہے اس میں کوئی جگہ بنتی نظر نہیں آ رہی، لیکن پھر بھی ہم انہیں بیسٹ آف لک کہیں گے کہ ملک کے مفاد کے لیے جو بھی سیاسی جماعت کام کرے اس کے لیے جگہ بننی چاہیے۔‘

بلوچستان نیشنل پارٹی کی رکن اسمبلی نسیمہ احسان نے کہا کہ ’سیاسی جماعت تو نئی ہے لیکن لوگ تو وہی ہیں، اگر یہ نئی سوچ کے ساتھ ملک و قوم کے لیے سوچیں تو ویلکم کہتے ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ کار نئی سیاسی جماعت کے قیام کو کیسے دیکھتے ہیں؟

سینیئر اینکر و تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل دونوں ن لیگ کے ناراض اراکین ہیں، ن لیگ سے الگ ہونے کے بعد دونوں عام انتخابات میں جیت ہی نہیں سکے، جو بھی بڑا نام اپنی سیاسی جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ اپنی نشست بھی نہیں نکال سکتا۔

’جو اپنے حلقے سے نہیں جیت سکے تو کہیں اور سے کہاں جیت سکیں گا؟ آج کل کے سیاسی منظر نامے میں سیاسی پارٹی بنا کر نشست نکالنے کے لیے اب حالات مشکل ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ٹیکنوکریٹ ہونے کی وجہ سے شاید اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کر لی جائے تو بات بن سکتی ہ۔ ، یہ حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ لوگ اگر سمجھتے ہیں تو ان کو موقع دے دیں گے۔‘

سینیئر اینکر و سیاسی تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’میرے خیال میں عوام پاکستان پارٹی منفرد سیاسی جماعت ہو گی کیونکہ اس میں زیادہ تر ٹیکنوکریٹس ہیں۔ شائد خاقان عباسی مفتاح اسماعیل، ڈاکٹر ظفر مرزا بھی ٹیکنو کریٹس ہی تھے۔

’بطور سیاسی جماعت ان کا سکوپ کیا ہو گا؟ ان کا سروائیول کیسے ہو گا؟ ان کا بیانیہ کیا ہو گا؟ یہ بہت معنی رکھتا ہے۔ ابھی تک جو علم میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کسی خاص بیانیے پر نہیں بلکہ پاکستان میں عوامی مسائل پر بات کریں گے۔‘  

عاصمہ شیرازی کے مطابق: ’پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے بطور سیاسی جماعت کے منظر عام پر آنے کے بعد مسائل کے حل سے زیادہ بیانیے پر زور دیا گیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی بیانیے اور منشور کی سیاست کرتی رہی ہیں۔

’جب کہ یہ نئی سیاسی جماعت مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے یہ آئیڈیا غالباً انہوں نے انڈیا کی ’عام آدمی پارٹی‘ سے لیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہتی کہ ان کا مستقبل بہت روشن ہے لیکن کم از کم لوگوں میں کچھ تبدیلی لانے کی کوشش یہ جماعت ضرور کر سکتی ہے۔ لیکن عوام کی توجہ یہ کیسے حاصل کریں گے یہ اہم ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان