بیٹیاں ہمارا فخر نہیں ہیں

مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی طوطے کا پنجرہ کھول دیں اور وہ نہ اڑے، ہمارا ہاتھ پہ آ کے بیٹھ جائے، دانہ چگتا رہے، ہماری شکل دیکھتا رہے، ہم سے باتیں کرتا رہے، تو ہم اس کے ساتھ ایک تصویر لگا دیں اور لکھ دیں کہ ’مجھے میرے طوطے پہ فخر ہے۔‘

بیٹیاں ہمارا فخر نہیں ہیں۔ 

عورتوں کے خلاف جب کوئی مردانہ مہم چلتی ہے تو اس کے نتیجے میں اکثر سوشل میڈیا پہ ہم لوگ اپنے ساتھ بیٹی کی تصویر لگاتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں کہ ’ہماری  بیٹیاں ہمارا فخر ہیں۔‘

اولاد ہمارا فخر کیسے ہو سکتی ہے؟

ایک بچہ آپ نے پیدا کر دیا تو اس میں فخر والی کیا بات ہے؟ بائیولاجیکل عمل تھا، بچہ ہوا، سب کے ہوتے ہیں، فخر کس بات کا؟ فخر کی تعریف کیا ہے؟ 

برتری، شرف، غرور، تکبر، گھمنڈ، شکوہ، شوکت و افتخار، شان، ڈکشنری یہ معنی بتاتی ہے۔ یعنی ہم، شاید یہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ بیٹے نہیں، بیٹی ہمارے لیے باعث افتخار ہے؟

یا ہمارا مطلب ہوتا ہے کہ بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیاں بھی ہمارا فخر ہیں؟ یا ہم دوسرے لوگوں کو جتانا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو میں اپنی بیٹی کو بھی بیٹے جتنی اہمیت دیتا ہوں؟ 

ان تینوں میں سے کوئی ایک وجہ ہوتی ہے تبھی ہم یہ فخر وغیرہ لکھا ہوا دیکھتے ہیں۔ 

سخت بات کر رہا ہوں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی طوطے کا پنجرہ کھول دیں اور وہ نہ اڑے، ہمارا ہاتھ پہ آ کے بیٹھ جائے، دانہ چگتا رہے، ہماری شکل دیکھتا رہے، ہم سے باتیں کرتا رہے، تو ہم اس کے ساتھ ایک تصویر لگا دیں اور لکھ دیں کہ ’مجھے میرے طوطے پہ فخر ہے۔‘

اڑنا طوطے کی فطرت ہے۔ آپ کا طوطا اگر نہیں اڑتا تو اس کا مطلب ہے پنجرے میں بند رکھ رکھ کے آپ نے اسے اڑنا بھلا دیا ہے۔

ایب نارمل طوطے پہ آپ کو فخر کیوں ہو گا؟ آپ کو فخر اپنی تربیت پہ ہے اصل میں، کہ آپ کا طوطا سرے سے اڑنا بھول گیا۔

اسی طرح بچوں کا معاملہ ہے۔ مجھے بتائیں بیٹا ہو یا بیٹی، اگر نوبت یہ آ گئی ہے کہ بغیر کسی وجہ کے آپ لوگوں کو یہ دکھانا چاہ رہے ہیں کہ وہ آپ کا فخر ہیں تو کیا یہ کوئی نارمل بات ہے؟

بیٹی نے کوئی اچھی نوکری حاصل کر لی، اچھی مصور ہے، رائٹر ہے، کامیاب ہے، خوش ہے، تب تو فخر کی سمجھ آتی ہے، تب آپ کا اس طرح لکھا حق پہ ہو گا۔

 یہ کس چیز کا فخر ہے جس کا اعتراف ہم دوسرے لوگوں کے سامنے کر رہے ہیں لیکن وہ بچی آج بھی اپنے گھر میں ایسے کئی مسئلوں کا شکار ہے جو اس کے بھائیوں کو بالکل نہیں ہوتے؟

ہمارے گھر کی فضا ایسی ہو کہ جب بچیاں فخر کر سکیں کہ ہمارے ماں باپ نے بھائیوں میں اور ہم میں فی الاصل کوئی فرق نہیں رکھا، تب تو سمجھ میں آتی ہے، یہ کون سا فخر ہے جس کا زبردستی شکار کر رہے ہیں ہم اپنی بیٹیوں کو؟

تم ہمارا فخر ہو اس لیے گھر سے باہر نہیں جانا، تم ہمارا فخر ہو اس لیے کسی لڑکے سے بات نہیں کرنی، تم ہمارا فخر ہو اس لیے بیٹا اٹھنے بیٹھنے میں جسم کا دھیان کرنا، تم ہمارا فخر ہو اس لیے کپڑے ذرا ڈھیلے پہننا۔

 تم ہمارا فخر ہو اس لیے جہاں کہیں وہاں تم شادی کر لینا، تم ہمارا فخر ہو اس لیے سوشل میڈیا پہ اپنی تصویریں نہ لگانا، تم ہمارا فخر ہو اس لیے ڈانس نہیں کرنا، تم ہمارا فخر ہو اس لیے کچھ بھی کرتے ہوئے ہمارے اس فخر کا دھیان رکھنا۔

یہ فخر ہے یا طوطے کا وہی پنجرہ؟ یہ بیٹیاں ہیں یا وہی طوطے جو پنجرے کے اسیر ہیں، اور اس میں خوش رہنے پہ مجبور ہیں؟ 

اور جس دن پنجرے کا مالک تبدیل ہو گیا اس دن بھی اسی لیے خوش رہنا چاہتی ہیں کہ رزق کا بندوبست ہے، تربیت اچھی ہے، اڑو مت، زندگی گزارو؟

ایسے میں کوئی خبط الحواس آدمی کہیں سے بھی نمودار ہوتا ہے، ایک آدھ جملہ اچھالتا ہے عورتوں کے خلاف اور ہم لوگ پھر سے اپنے فخر نکال کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

یہ فخر نہیں ہے، یہ مردانہ سوچ کی ایک زنجیر ہے جس سے ہر ماں باپ اپنی اولاد کو باندھے رکھنا چاہتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب سے بڑا مسئلہ وہاں ہوتا ہے جہاں ماں باپ جدید سوچ رکھتے ہوں، بیٹی کو اچھا ماحول دیا ہو لیکن ساتھ ساتھ اسے یہ بتایا جائے کہ ہم نے تمہیں یہ آزادی دی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی سوچ محدود تھی، آپ اس چیز کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں کہ آپ نے ایک اولاد کو دوسرے کے برابر مواقع دیے۔ کیا یہ ’آزادی‘ ہر انسان کا پیدائشی حق نہیں ہے؟ 

اگر برابری بچے اور بچی کا ایک جیسا حق ہے تو کبھی آپ نے یہ کیوں نہیں  لکھا کہ ’میرا بیٹا میرا فخر ہے؟‘ یا ’میں نے اپنے بیٹے کو بالکل آزادی دی ہوئی ہے۔‘

ہم اپنی سوچ نہیں بدل سکتے یہ صدیوں کی تربیت ہے، آس پاس کا جبر ہے، لیکن بیٹیوں پر، بہنوں پر، بیویوں پر، خواتین دوستوں پر، کولیگز پہ، ہر اس عورت پر یہ ظلم ہے کہ جو ہمارے ساتھ کسی بھی تعلق میں ہے۔

اس کا صاف ترین مطلب یہ ہے کہ ہم اسے ایک سیکنڈ کے لیے بھی خود سے بہتر تو کیا برابر بھی نہیں سمجھ سکتے اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری مرضی کے مطابق زندگی گزارے۔

اور برابر نہیں سمجھتے تو پھر چاہے 95 فیصد کو جاہل کہیں یا بیٹیوں کو سکول بھیجنے کے خلاف گانے گائیں، نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ