جسٹس عالیہ نیلم کی تقرری روکنے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں: حامد خان

سینیئر وکیل حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جسٹس عالیہ نیلم کی بحیثیت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تقرری پارلیمانی کمیٹی نے کرنا ہے جسے وہ روکنے کی کوشش کریں گے۔

لاہور ہائی کورٹ کی پہلی نامزد خاتون چیف جسٹس عالیہ نیلم (لاہور ہائی کورٹ ویب سائٹ)

سپریم جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عالیہ نیلم کی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے طور تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارت میں ہونے والا سپریم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس منگل کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت میں ہوا۔

اجلاس میں جسٹس عالیہ نیلم کے نام کی متفقہ طور پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے لیے منظوری دی گئی۔ 

پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس بن جائیں گی۔

ان کی تعیناتی کے لیے منظوری سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ملک شہزاد احمد خان کے سپریم کورٹ میں تقرر کے بعد دی گئی ہے۔

پنجاب کے وکلا جسٹس عالیہ نیلم کی بحیثیت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعیناتی پر تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔

وکلا منقسم

سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان نے کہا ہے کہ سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعینات ہونا چاہیے۔

’ججز سینیارٹی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بڑا واضح  ہے۔ سپریم کورٹ سینیارٹی کے اصول کے حوالے سے گائیڈ لائن فراہم کر چکی ہے۔‘  

حامد خان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’پروفیشنل وکلا کا کوئی جج پسندیدہ نہیں بلکہ اصول کی بات کر رہے ہیں۔

’قائم قام چیف جسٹس شجاعت علی خان کی سینیارٹی نظرانداز کرنے کے اقدام سے بےیقینی کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی چیلنج کی جائے گی۔ وکلا سینیارٹی کا اصول بحال کرانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔‘

سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے وکلا رہنما جو جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس نامزدگی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ان سے دریافت کیا جائے کہ جب جسٹس شاہد بلال کو چوتھے نمبر سے اٹھا کر سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا گیا اس وقت آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔

’جب ایک بار سینیارٹی کا خیال نہیں رکھا گیا تو دوسری بار اس معاملہ کو کیوں اچھالا جارہا ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ جسٹس عالیہ نیلم ایک سنجیدہ اور بااصول جج ہیں اور وکلا انہیں گذشتہ 10 برس سے دیکھ رہے ہیں۔ بطور صدر بار ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔

’میں نے انہیں بہت سے ججز سے بہتر پایا۔ فیصلہ کرتے وقت بھی انہیں کسی دباؤ میں آتے نہیں دیکھا بلکہ بہادری سے فیصلے دیے۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف کسی قسم کی مالی بدعنوانی کی بھی کوئی شکایت نہیں سنی۔ حتی کہ کبھی عورت یا مرد سائل میں بھی خاتون ہونے کے ناطے فرق کرتے نہیں دیکھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقصود بٹر کا کہنا تھا کہ’ہم سمجھتے ہیں جسٹس عالیہ نیلم کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور چیف جسٹس تقرری سے بہتری ضرور آئے گی۔

’لیکن زیر التوا کیسوں میں کمی کی امید نہیں۔ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی 60 سیٹیں ہیں لیکن جج صرف 38 فرائض انجام دے رہے ہیں۔

’ہم جوڈیشل کونسل سے اپیل کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججز کی تعداد پوری کی جائے تاکہ کیسوں کا التوا ختم ہو اور انصاف میں تاخیر نہ ہو۔‘

قانون دان حامد خان نے کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کمیشن نے پسند نہ پسند کی بنیاد پر دو سینیئر ججز کو سپرسیڈ کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی نامزدگی کی ہے۔ جس کی واحد وجہ میرٹ کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی سے تعیناتی کی کوشش ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سپریم کورٹ آنے کے بعد وہاں میرٹ پر سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس نامزد کیا لیکن پنجاب میں نہ صرف میرٹ کو نظرانداز کیا بلکہ 22 سال بعد ایسی روایت ڈالی کہ آئندہ بھی اس طرح کی تعیناتیوں کا راستہ کھل جائے۔‘

حامد خان نے بتایا کہ ’جوڈیشل کمیشن نے نامزدگی تو کر دی اب پارلیمانی کمیٹی کی منظوری سے تقرری ہونا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی میں کل آٹھ اراکین ہیں، جن میں میرے علاوہ لطیف کھوسہ اور علی محمد سمیت چار اراکین پی ٹی آئی کے ہیں اور فاروق ایچ نائک بھی ممبر ہیں۔ 

’ہمیں امید ہے وہ بھی ہمارا ساتھ دیں گے۔ کمیٹی میں اکثریتی رائے کی بنیاد  پر تقرری کی منظوری ہونا ہے۔ لہٰذا ہم منظوری روکنے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے چار چار ارکان ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم اس غیر قانونی اور میرٹ کے خلاف تقرری کو روکنے کی پوری کو شش کریں گے۔‘

جسٹس عالیہ نیلم بطوروکیل اور جج

لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق جسٹس عالیہ نیلم 12 نومبر 1966 کو پیدا ہوئیں اور انہوں نے 1995 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد یکم فروری 1996 کو لاہور بار ایسوسی ایشن کی ممبر بنیں اور وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔

انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ہی ایم اے سیاسیات اور بی ایڈ کی ڈگریاں بھی حاصل کر رکھی ہیں، جب کہ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے قانون کے ڈپلومے بھی مکمل کر چکی ہیں۔

جسٹس عالیہ نیلم فروری1998  میں ہائی کورٹ کی وکیل بنیں اور 2008 میں انہیں سپریم کورٹ کی وکلات کا لائسنس ملا، جب کہ اپریل 2013 میں انہیں بطورجج لاہور ہائی کورٹ تعینات کیا گیا۔

جسٹس عالیہ نیلم نے بطور وکیل وائٹ کالر کرائمز، سول، کرمنل، انسداد دہشت گردی، نیب اور بینکنگ سے متعلق کیسوں کی پیروی کی۔

انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں 850 جب کہ سپریم کورٹ میں 91 کیسوں کی پیروی کی، جن میں سے 26 کیس جیتے۔

بطور جج لاہور ہائی کورٹ انہوں نے مختلف کیسوں میں 11 سالہ سروس میں 203 فیصلے دیے۔ 

انہوں نے امریکہ اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک میں عالمی سطح پر ہونے والی قانون و انصاف سے متعلق کانفرسز میں بھی پاکستانی عدلیہ کی نمائندگی کی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان