اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا ’ڈیل ڈھونڈنے‘ کے مترادف ہوگا: فواد چوہدری

پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ’اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لیں گے تو ان میں اور شہباز شریف میں کیا فرق رہ جائے گا؟‘

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کی خبروں پر ’حیرانی‘ کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’ڈیل ڈھونڈنے‘ کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لیں گے تو ان میں اور وزیراعظم شہباز شریف میں کیا فرق رہ جائے گا؟

منگل کو انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں فواد چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی معاملات، فارورڈ بلاک کی قیاس آرائیوں، اپنی سیاسی وابستگی اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات سمیت دیگر معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔

اسٹیبلشمنٹ سے رابطے سے متعلق سوال پر سابق وفاقی وزیر نے کہا: ’اب اسٹیبلشمنٹ سے کیا رابطہ ہوگا؟ ہمارے ان سے قریبی تعلقات تھے۔ جو رویہ انہوں نے ہمارے ساتھ رکھا، تشدد کیا، سیاست کو تباہ کیا اور الیکشن لڑنے سے روکا۔ اس کے بعد کیا تعلق رہے گا؟‘

بقول فواد چوہدری: ’اسٹیبلشمنٹ سے پی ٹی آئی کی بات ہونا قبل از وقت ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ان (اسٹیبلشمنٹ) سے بات کرنے پر حیرانی ہوتی ہے کہ کون اس قسم کا مشورہ دے رہا ہے؟‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا مطلب ہے کہ آپ ڈیل ڈھونڈ رہے ہیں۔ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لیں گے تو ان میں اور شہباز شریف میں کیا فرق رہ جائے گا؟‘

سیاست دانوں یا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے جواب دیا کہ دونوں سے ہی مذاکرات نہیں ہونے چاہییں۔ ’مذاکرات تب کامیاب ہوں گے جب برابری کی سطح پر بیٹھ کر بات ہوگی۔ پی ٹی آئی کو اس وقت صرف اپوزیشن کی جماعتوں سے بات کرنی چاہیے، حکومت سے دوسرے مرحلے میں مذاکرات ہونے چاہییں۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے 26 جون کو قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اپوزیشن خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کو مفاہمت کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ملک کی ترقی کے لیے مل بیٹھ کر بات کریں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو اگر جیل میں کوئی مشکلات ہیں تو اس سے آگاہ کریں، تاہم اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے بات چیت کو عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی سے مشروط قرار دیا تھا۔

’منفی اور مثبت مداخلت‘

پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستانی سیاست اور اندرونی معاملات میں بین الاقوامی مداخلت کے خلاف بیانات سامنے آتے رہے ہیں جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے امریکہ اور عالمی برادری سے عمران خان کے خلاف مقدمات اور آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتائج میں مداخلت کا مطالبہ کیا ہے، جس کے باعث حال ہی میں امریکی ایوان نمائندگان میں ایک قرارداد بھی منظور ہوئی۔

جب فواد چوہدری سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ معاملہ سائفر کے معاملے سے مختلف ہے۔ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی، جو حقوق کے خلاف بات تھی۔ ایک منفی مداخلت ہے اور دوسری مثبت مداخلت ہے۔‘

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ’مداخلت تو مداخلت ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کے عام انتخابات کے نتائج میں بظاہر مداخلت کرنا کیا ہے؟ تو سابق وفاقی وزیر نے کہا: ’یہ مداخلت نہیں ہے۔ پاکستانی شہری، جو فرد کی آزادی پر یقین رکھتا ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ آواز اٹھائے۔‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ورکنگ گروپ برائے آربٹریری ڈیٹینشن نے پیر کو ’عمران خان کی گرفتاری کو صوابدیدی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے انہیں ’فوری رہا کرنے‘ اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں اس ’حراست کے باعث معاوضے اور دیگر ازالے کا قابلِ عمل حق دینے‘ کا مطالبہ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اس حوالے سے حکومتی ردعمل دیتے ہوئے اسے پاکستان کا ’داخلی معاملہ‘ قرار دیا۔

’کبھی پی ٹی آئی نہیں چھوڑی‘

نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے نتیجے میں جب اس میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تو پی ٹی آئی کے بہت سے اہم رہنما پارٹی چھوڑ گئے، جن میں سے ایک فواد چوہدری بھی تھے، جنہوں نے نہ صرف پارٹی کے نائب صدر کا عہدہ بلکہ سیاست بھی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا اور بعدازاں وہ جہانگیر ترین کی ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کے قیام کے وقت ہونے والی پریس کانفرنس میں بھی دکھائی دیے تھے۔

انٹرویو کے دوران جب فواد چوہدری سے پی ٹی آئی میں واپس جانے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ’واپس تو میں تب جاؤں، جب میں نے پارٹی چھوڑی ہو۔ میں نے کبھی پی ٹی آئی نہیں چھوڑی، اسی کا حصہ ہوں۔‘

تاہم ’استحکام پاکستان پارٹی‘ میں شمولیت اختیار کرنے اور اس کی پریس کانفرنس میں موجودگی سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے شاکر شجاع آبادی کا یہ شعر پڑھا ؎

توں شاکر آپ سیانا ایں
ساڈا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جن حالات میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اب کہانیاں نکل آئی ہیں، بے شمار کہانیاں نہیں نکلیں، جو بعد میں آئیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی وابستگی کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے ان کے حوالے سے دیے گئے تنقیدی بیانات پر فواد چوہدری نے کہا: ’چھوٹے قد کے لوگ دوسروں کو روک کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا قد بڑا ہو جائے گا۔ یہ لوگ تو سمجھتے ہیں ہمارے علاوہ کوئی نہ ہو۔‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی عمران خان سے جیل میں دو تین مرتبہ ملاقات ہو چکی ہے۔ بقول فواد چوہدری: ’ان کی جانب سے پیغامات بھی آئے۔ پارٹی کی سینیئر قیادت سے ان کا رابطہ رہتا ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بننے سے متعلق فواد چوہدری نے کہا کہ مختلف خیالات رکھنے والے افراد ایک سیاسی جماعت بناتے ہیں۔ کسی کے پارٹی میں آنے یا نہ آنے یا عہدہ ملنے سے متعلق ہمیشہ لڑائیاں چلتی رہتی ہیں۔

مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کا فعال کردار نظر آنے سے متعلق فواد چوہدری نے کہا: ’ساری سیاست ہی اس سیاسی جماعت اور عمران خان کے گرد گھوم رہی ہے۔ جب بھی دوبارہ انتخابات ہوں گے اس کی نمائندگی عمران خان کریں گے۔‘

’اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ ختم کرکے پاؤں پر کلہاڑی ماری‘

پاکستان تحریک انصاف کےبانی چیئرمین عمران خان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے تعلقات کس نقطے پر خراب ہوئے؟ اس سوال کے جواب میں سابق پی ٹی آئی رہنما نے کہا: ’ہمارے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی سیاست کا شکار ہوئے۔ ہمارا براہ راست کوئی تنازع نہیں ہوا۔ ہماری کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ عمران خان، نواز شریف یا بے نظیر بھٹو، اس قد کاٹھ کے لوگوں کو آپ انوار الحق کاکڑ، شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کی طرح ڈیل نہیں کر سکتے۔‘

اس سوال پر کہ کیا ’جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے تعلقات خراب ہونے کی ایک وجہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو ہٹانا تھی؟‘ فواد چوہدری نے جواب دیا: ’کئی معاملات تھے، جن میں جنرل فیض اور (سابق وزیراعلیٰ پنجاب) عثمان بزدار کے معاملات تھے، لیکن یہ اتنے اہم نہیں۔‘

فواد چوہدری کے مطابق: ’ہم سے ایک بڑی غلطی ہو گئی کہ ہم نے دباؤ میں آ کر رابطے ختم کر دیے، جو ختم نہیں کرنے چاہیے تھے۔ ہم نے ان سے اچھے رابطے ختم کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ وہاں پھر صرف ہمارے خلاف لابی بنی۔‘

پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے اثر انداز ہونے سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ’یہ تنقید صرف پی ٹی آئی پر نہیں 76 سال سے جاری ہے۔ ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کا تب سے کردار ہے، اسی لیے اب اپنے کردار پر دوبارہ سوچنا ہوگا۔‘

پارلیمان سے استعفے دینے سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے بتایا: ’یہ فیصلہ عمران خان کا تھا۔ پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت کی وجوہات دو فیصلے ہیں، ایک اسمبلیوں سے استعفے دینا اور دوسرا اسمبلیاں توڑنا۔‘

بقول فواد چوہدری: ’اگر ہم نظام میں رہتے ہوئے لڑنے کی کوشش کرتے تو آج ہمارا نام و نشان نہ ہوتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست