وزیراعظم محمد شہباز شریف نے آج اپوزیشن کو مفاہمت کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے مل بیٹھ کر بات کریں، بانی پاکستان تحریک انصاف کو جیل میں اگر کوئی مشکلات ہیں تو اس سے آگاہ کریں۔
قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کینسر کا مریض ہونے کے باوجود جیل میں نہیں رویا، ہم نہیں چاہتے کہ جو زیادتیاں ہم سے ہوئیں وہ ان سے ہوں۔‘
بدھ کو قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے رکن علی محمد خان کی طرف سے کابینہ ڈویژن کے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم نے 2018 کے جھرلو انتخابات کے باوجود نہ صرف اس کے نتائج قبول کیے بلکہ اس ایوان میں بھی آئے، میں نے بطور اپوزیشن لیڈر اپنی پہلی تقریر میں میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کی پیشکش کی۔ تاہم ہماری اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا دیا گیا اس ایوان میں جو نعرے لگائے گئے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم سیاسی یا کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کے ساتھ زیادتی کے حق میں نہیں ہیں، انصاف کا پلڑا بھاری رہنا چاہیے۔‘ وزیراعظم نے کہا کہ ایوان کو دیکھنا چاہیے کہ ان تلخیوں کا ذمہ دار کون ہے، آج 76 سال بعد بھی ہم ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی کتراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہی ایوانوں میں ماضی میں ایک دوسرے پر بہت تنقید بھی ہوتی تھی، ایک دوسرے کی مخالفت بھی ہوتی تھی تاہم اس کے باوجود ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔
وزیر اعظم نے علی محمد خان کے حوالے سے کہا کہ ’اپنی تقریر میں اس کا بھی ذکر کر دیتے کہ جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو اس وقت میں جیل میں تھا اور اسی روز میری پیشی تھی، میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے پیشی سے استثنیٰ مانگا لیکن اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ انہیں پیش کیا جائے، پھر مجھے قیدیوں کی گاڑی میں پیشی پر لے جایا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم نے کہا کہ ’میں کینسر کے مرض میں مبتلا تھا تاہم میں نے تو کبھی ایسا رونا نہیں رویا، جب والدہ کی وفات کے دن میں عدالت کے سامنے پیش ہوا تو ہمارے وکیل نے بھی استثنیٰ مانگا تاہم اس وقت جج صاحب نے کہا کہ گواہ بلائے گئے ہیں ہر صورت بیان ریکارڈ ہوں گے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ خواجہ آصف، رانا ثنااللہ سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کو زمینوں پر لٹایا گیا، انڈر ٹرائل قیدیوں اور سزا یافتہ مجرموں کے حقوق میں فرق ہوتا ہے، ہم سب انڈر ٹرائل قیدی تھے تاہم ہمیں دوائیاں اور کھانا لانے کی اجازت نہیں تھی۔
’ہم نہیں چاہتے جو زیادتیاں ہم سے ہوئیں وہ ان سے ہوں، ملک کو آگے لے جانے، اس کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ہم انہیں پھر دعوت دیتے ہیں کہ آئیں مل بیٹھ کر بات کریں اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔‘
قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بات چیف کو عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی سے مشروط قرار دیا۔