’95 فیصد جاہل‘ والے ویڈیو کلپ پر چینل کو معافی مانگنی چاہیے؟

ہم لوگ آئے دن اس بات پر کڑھتے رہتے ہیں کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کیوں بڑھ گئی ہے، ہم پر زوال کیوں آ گیا ہے، معاشرے کی تنزلی کا کیا سبب ہے، وغیرہ وغیرہ، یہ چار منٹ کا کلپ ان تمام باتوں کا جواب ہے۔

آفرین ہے اس لڑکی پر جس نے بے خوفی سے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں اور مذہبی حوالوں سے متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں (سکرین گریب: سما ڈیجیٹل)

ویسے تو پاکستانی مزاح تخلیق کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں تو کمال ہی ہو گیا ہے۔

ہمارے ہاں ’دانشوروں‘ کی ایسی نئی کھیپ تیار ہوئی ہے جسے ہم برآمد کر کے اچھے خاصے ڈالر کما سکتے ہیں۔ ان میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو پینٹ قمیص کے ساتھ واسکٹ پہن کر خود کو علامۂ دوراں سمجھتا ہے اور سکول کالجوں میں جا کر مذہب کا چورن بیچتا ہے۔

اس بندے کا خیال ہے کہ وہ جدید دور کا اصلاح کار (ریفارمسٹ) ہے اور امت مسلمہ کو بیدار کرنے کا کام اسے سونپا گیا ہے۔ میں موصوف کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ ’آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔‘

موصوف کی گفتگو سنیں تو لگتا ہے جیسے دن رات سپائڈر مین اور ایونجرز دیکھتے رہتے ہیں لیکن حلیہ ایسا بناتے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں کہ میرے اندر علم کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے، باقی پوری قوم جاہل ہے۔

ویسے ان صاحب کا بھی قصور نہیں، یہاں ہر دوسرا بندہ خود کو طرم خان ہی سمجھتا ہے، تاہم آج ان صاحب پر لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ گذشتہ دنوں جناب نے ایک ٹاک شو میں خواتین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کی ’95 فیصد‘ عورتیں جاہل ہیں۔

اس پر مہمانوں میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی بےمعنی اور بےربط گفتگو سے متاثر ہونے کی بجائے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ خواتین کی اس طرح توہین کرنے پر معافی مانگیں۔

لیکن موصوف کی لغت میں معافی کا لفظ ہی نہیں تھا، سو بجائے معافی مانگنے کے وہ مزید اس لڑکی کے سر ہو گئے کہ چونکہ اسے ’طاغوت‘ کا مطلب نہیں پتہ پس ثابت ہوا کہ وہ جاہل ہے۔ یہ کلپ سوشل میڈیا پر خاصا وائرل ہوا۔ اس شو میں وہ لکھاری بھی موجود تھا جواپنی گفتگو کی وجہ سے مشہور ہے، وہ بھی درمیان میں کود پڑا اور اس نے لڑکی کو مذہب کی بنیاد پر اعلانیہ دھمکانے کی کوشش کی۔

اس تمام ہنگامے کے نتیجے میں اصولاً تو چینل کو معافی مانگنی چاہیے تھی مگر چینل کو تو ریٹنگ چاہیے، سو چینل نے اس کا چٹ پٹا سا اشتہار بنا کر یوٹیوب پر چڑھا دیا۔

ہم لوگ آئے دن اس بات پر کڑھتے رہتے ہیں کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کیوں بڑھ گئی ہے، ہم پر زوال کیوں آ گیا ہے، معاشرے کی تنزلی کا کیا سبب ہے، وغیرہ۔

یہ چار منٹ کا کلپ ان تمام باتوں کا جواب ہے۔ اس کلپ کو دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم جن لوگوں کو دانشور سمجھتے ہیں، انہیں نہ صرف گفتگو کے بنیادی آداب نہیں معلوم بلکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ دلیل کیا ہوتی ہے اور اس کا جواب کیسے دیا جاتا ہے۔

وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی ان پر تنقید کرے تو جواب میں انہیں مذہب کے حوالے دے کر خاموش کروا دیا جائے، لیکن آفرین ہے اس لڑکی پر جس نے بےخوفی سے کہا کہ آپ میرے سوال کا جواب دیں اور مذہبی حوالوں سے متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کلپ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے یہ دانشور مذہب کا سہارا لے کر اپنے کھوکھلے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں اور جب انہیں کوئی چیلنج کرتا ہے تو وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے الٹا اسی کو لتاڑنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے وہ ان کی نہیں بلکہ مذہب کی توہین کا مرتکب ہوا ہے۔

اس کلپ کے اختتام پر اس لکھاری نے یہی کرنے کی کوشش کی۔

وہ تو شکر ہے کہ یہ ریکارڈڈ شو تھا ورنہ یہ لکھاری تو نہ جانے اس پر کیا الزام لگا دیتا۔ پھر نہ کوئی مقدمہ چلتا بلکہ موقعے پر ہی ’انصاف‘ ہو جاتا۔

ایک خوش آئند بات البتہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوان موجود ہیں جو ان کھوکھلی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے اور سوال کرنے کی اہلیت اور جرات رکھتے ہیں۔

یہ بات ہمارے مستقبل کے لیے روشنی کی کرن ہے، ورنہ جس معاشرے میں ایسے لوگوں کو دانشور سمجھ لیا جائے وہاں بندہ کیا امید رکھ سکتا ہے۔

ویسے یہ دانشور اب بہت تیزی سے بےنقاب ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اس نوجوان لڑکی کے ہاتھوں یہ موصوف کی پہلی ’بے عزتی‘ نہیں بلکہ اس سے پہلے کسی یوٹیوب پوڈ کاسٹ میں موصوف نے حسب عادت نہایت سرپرستانہ لہجے میں میزبان کو دو تین مرتبہ ’بیٹا بیٹا‘ کہہ کر پکارا۔

 جس پر میزبان نے جواباً کہا کہ میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں، مجھے بیٹا کہنے کی بجائے مجھے ابو کہیں اور مجھ سے معافی مانگیں۔

اس کے بعد میزبان نے اس سے معافی منگوا کر دم لیا۔ سو، جہاں اس جیسے لوگ چار دن میں مشہور ہو جاتے ہیں، وہاں اتنی ہی جلدی ایکسپوز بھی ہو جاتے ہیں۔

میں اکثر معاشرے کی تنزلی دیکھ کر کافی مایوس ہو جاتا ہوں اور دل میں کڑھتا رہتا ہوں مگر اس کلپ میں لڑکی نے جس طرح دانشور کو بےنقاب کیا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ مٹی ابھی نم ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر