سعودی عرب: ’15 فیصد لوگ ہفتے میں ایک بار ضرور پوڈکاسٹ سنتے ہیں‘

نشریاتی امور پر نظر رکھنے والے برطانوی ادارے مارکیٹیرز کی تحقیق کے مطابق سعودی عرب میں 51 لاکھ افراد پابندی سے پوڈکاسٹ سنتے ہیں۔

مارکیٹرز کی رپورٹ کے مطابق عمر کے لحاظ سے نوجوان (24 سے 44 سال) کا طبقہ پوڈکاسٹ زیادہ سنتا ہے اور موبائل فون پر ہی زیادہ تر پوڈکاسٹ کو سنا جاتا ہے (پیکسلز)

سعودی عرب میں پوڈکاسٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے متعلق ایک برطانوی کمپنی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ لگ بھگ 51 لاکھ افراد سعودی عرب میں روزانہ پوڈ کاسٹ سنتے ہیں۔

پوڈ کاسٹ کو کس دلچسپی سے ریکارڈ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس ایک جملے سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب یونیورسٹی آف کولمبیا کے سابق پروفیسرجارج صلیبا دوران انٹرویو میزبان سے سوال کرتے ہیں: ’ہمیں گفتگو کرتے ہوئے کتنا وقت ہوگیا؟‘ تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ قریباً دو گھنٹے 20 منٹ سے انٹرویو دے رہے ہیں۔

صلیبا حیران ہو کر میزبان اور ان کی ٹیم سے کہتے ہیں: ’اس انٹرویو کو نشر کرنے سے قبل آپ لوگوں کو کافی ایڈیٹنگ کرنا پڑے گی، وہ مجھ سے پوچھ کر کیجیے گا، میری باتوں کو ادھر ادھر نہیں کیجیے گا۔‘

میزبان ان کو اطمینان سے بتاتے ہیں کہ انٹرویو مکمل نشر کیا جائے گا، کوئی حصہ کاٹا نہیں جائے گا، جس پر صلیبا کے منہ سے بے ساختہ  ’میں سمجھا نہیں‘ نکلتا ہے۔

میزبان ان کو دوبارہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ دو گھنٹے طویل انٹرویو نشر ہوگا، جس پر صلیبا ششدر رہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ عام طور پر 25 منٹ سے طویل ویڈیوز نہیں دیکھتے۔

میزبان اس پر جواب دیتے ہیں کہ انہوں نے دو ماہ قبل تین گھنٹے طویل ایک انٹرویو نشر کیا جس کو اب تک 2.7 کروڑلوگ سن چکے ہیں!

یہ گفتگو کسی ٹی وی چینل پر نہیں بلکہ سعودی عرب کے مشہور پوڈکاسٹ ’فنجان‘ پر ہو رہی تھی، جس کے میزبان سعودی نوجوان عبدالرحمٰن ابو مالح ہیں۔

صلیبا کا یہ دو گھنٹے طویل انٹرویو یوٹیوب پر موجود ہے اور اس کو اب تک 80 لاکھ لوگ صرف یوٹیوب پر دیکھ چکے ہیں۔

یہ سعودی عرب میں پوڈکاسٹ کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت اور اس بات کی دلیل ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ کی مقبولیت میں اختصار ایک اہم عامل ہونے کے باجود لوگ آج بھی طویل دورانیے کا مواد دیکھتے اور سنتے ہیں، بشرط مواد معیاری اور عوامی ذوق کے مطابق ہو۔

اعداد وشمار کیا کہتے ہیں؟

نشریاتی امور پر نظر رکھنے والے برطانوی ادارے مارکیٹیرز کی 2020 میں جاری ہونے والی تحقیق، جس کو سعودی جریدہ الاقتصادیہ نے بھی نقل کیا ہے، کے مطابق سعودی عرب میں 51 لاکھ افراد پابندی سے پوڈکاسٹ سنتے اور دیکھتے ہیں۔

بالفاظ دیگر ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ’سعودی عرب کی 15 فیصد آبادی‘ ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور پوڈکاسٹ سنتی یا دیکھتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ کے مطابق پابندی سے پوڈکاسٹ سننے والوں میں خواتین کی شرح مردوں کے مقابلے میں دگنی یعنی 20 فیصد ہے۔

رپورٹ میں جاری کردہ مزید اعداد و شمار کے مطابق دیگر ذرائع ابلاغ کے برعکس مختلف حدود وقیود سے نسبتاً آزاد ہونے کی وجہ سے پوڈکاسٹ سعودی عرب میں سب سے زیادہ معتمد میڈیا پلیٹ فارم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ عمر کے لحاظ سے نوجوان (24 سے 44 سال) کا طبقہ پوڈکاسٹ زیادہ سنتا ہے اور موبائل فون پر ہی زیادہ تر پوڈکاسٹ کو سنا جاتا ہے۔

 ’عالمی معیار کا مواد‘

سعودی میڈیا کمپنی ’ثمانیہ‘ مملکت میں ہی نہیں بلکہ عرب دنیا میں پوڈکاسٹ کا بڑا نام ہے جبکہ فنجان پوڈکاسٹ ثمانیہ کے متعدد پوڈکاسٹس میں سے ایک اور ’سب سے مشہور‘ ہے۔

فنجان کے میزبان اور ثمانیہ کے سی ای او عبدالرحمٰن ابومالح نے اپنے پوڈکاسٹ کی 300 اقساط  پورے ہونے پہ بتایا کہ ’سامعین کی تعداد کے لحاظ سے ان کے پوڈکاسٹ کا مقابلہ عرب دنیا میں نہیں بلکہ عالمی پوڈکاسٹ کے ساتھ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’بعض اوقات ہمارا پوڈکاسٹ دنیا میں سب سے زیادہ سنے جانے والے پانچ پوڈکاسٹس میں آتا ہے۔‘

فنجان کے پروڈیوسر ایمن الحمادی نے اپنے ہی چینل پر جاری ایک ویڈیو میں بتایا کہ ان کے نزدیک پوڈکاسٹ کا معیاری ہونا بہت اہم ہے۔

’ہم پر اپنے سامعین کا احترام لازم ہے کیونکہ وہ ہم پر اعتماد کرتے ہیں کہ ہم معیاری مواد ہی پیش کریں گے۔

’یہ انتہائی نامناسب ہے کہ ہم غیر معیاری انٹرویو نشر کریں اور سننے والے کا آدھا یا ایک گھنٹہ ضائع کرنے کے بعد معلوم ہوکہ یہ سننے کے قابل نہیں۔‘

ابو مالح اپنے پوڈکاسٹ کو سخت انٹرویو کی بجائے باہمی گفتگو سے تعبیر کرنا پسند کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ہر رائے کو سنا جانا چاہیے۔

’ہم اپنے کسی میزبان سے سخت سوال کرکے اس کو شرمندہ نہیں کرتے بلکہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی سوچ رکھے اور پھر لوگ اس میزبان اور اس کی سوچ کے متعلق خود فیصلہ کریں۔‘

انہوں نے کہا: ’ضروری نہیں مشکل سوالات کرنے سے ہی انسان بے نقاب ہو، بعض اوقات انسان کو بے نقاب کرنے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ آپ اس کو اپنی سوچ کو اپنے پسند کے الفاظ میں بیان کرنے کا موقع دیں۔

’جب وہ آزادی کے ساتھ کھل کر اپنی سوچ سامنے رکھ دیتا ہے تو اس کی اصلیت خود ہی ظاہر ہو جاتی ہے۔‘

حیات بشیر کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں سماجیات کی طالبہ ہیں اور پابندی سے پوڈکاسٹ سنتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ تفریح کے علاوہ اپنے پسند کے موضوعات پر معلومات حاصل کرنے کے لیے بھی پوڈکاسٹ سنتی ہیں۔

ان کے پسندیدہ پوڈکاسٹ میں ایک ’استشارہ مع سارہ‘ بھی ہے جو کہ بچوں کی تربیت اور نفسیات کے متعلق پروگرامز نشر کرتا ہے۔

حیات نے کہا ’مجھے بچے پسند ہیں اور بچوں کو سمجھنے کا شوق ہے اس لیے میں یہ پوڈکاسٹ سنتی ہوں، پوڈکاسٹ کو دیگر ذرائع پہ توجہ دینے کی یہ وجہ ہے کہ پوڈکاسٹ کو آسانی کے ساتھ موبائل پہ  ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے اور دیگر کاموں میں مصروف ہونے کے ساتھ بھی سنا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا