سٹارمر کی قابل قیادت میں برطانیہ کے ساتھ کام کرنے کے منتظر: شہباز

کیئر سٹارمر نے ٹین ڈاؤنگ سٹریٹ میں اپنے خطاب میں کہا کہ تبدیلی وقت لیتی ہے تاہم وہ اس پر جلد ہی کام شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے لیبر پارٹی اور کیئر سٹارمر کو برطانوی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی پر مبارک باد دی ہے۔

شہباز شریف نے جمعہ کو ایکس پر لکھا کہ ’عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی شاندار کامیابی پر سر کیئر سٹارمر کو مبارک باد۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سر سٹارمر کی دانشمندانہ اور قابل قیادت میں برطانیہ کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں تاکہ پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات کو مزید مضبوط اور وسیع کیا جا سکے۔‘

اس سے قبل جمعہ کو نومنتخب برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’ملک میں تبدیلی ایک بٹن دبانے سے نہیں آجاتی۔‘

 برطانوی عام انتخابات میں اب تک کے نتائج کے مطابق لیبر پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ لیبر پارٹی کے رہنما اور نو منتخب وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے اپنی وکٹری سپیچ میں کہا ہے کہ ملک میں ’تبدیلی‘ آ گئی ہے۔

کیئر سٹارمر نے ٹین ڈاؤنگ سٹریٹ میں بطور وزیر اعظم اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ دنیا ’مزید غیر مستحکم‘ ہو گئی ہے۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تبدیلی وقت لیتی ہے تاہم وہ اس پر جلد ہی کام شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔

نو منتخب برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’اب ہمارے ملک نے تبدیلی کے لیے فیصلہ کن طور پر ووٹ دیا ہے اور اب عوامی خدمت کی سیاست کے دور کا آغاز ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ مانتے ہیں کہ عوام کی سیاسی عمل پر اعتماد کی کمی کو الفاظ سے نہیں بلکہ عمل کرنے سے دور کیا جاسکتا ہے۔

سٹارمر نے کہا: ’چاہے آپ نے لیبر کو ووٹ دیا یا نہیں - درحقیقت اگر آپ نے نہیں دیا - میں آپ سے براہ راست کہتا ہوں، میری حکومت آپ کی خدمت کرے گی۔‘

برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’ملک پہلے آتا ہے اور پارٹی دوسرے نمبر پر (اہم) ہے۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ایک ’پر امن اور صابر طریقے سے دوبارہ (ملک کو) بنائے گی۔‘

اس سے قبل سابق وزیراعظم رشی سونک نے شکست تسلیم کرتے ہوئے کو کیئرسٹارمر کو مبارک باد دی ہے اور جمعے کو اپنے حامیوں سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اب لیبر پارٹی حکومت بنائے گی۔‘

برطانوی انتخابات کے اب تک کے نتائج

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق ابتدائی نتائج میں لیبر پارٹی کی نشستوں کی تعداد کنزرویٹو یعنی ٹوری پارٹی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

لیبر پارٹی کے رہنما کیئر سٹارمر نے ابتدائی نتائج کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے کر دکھایا۔‘

لندن میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے اس کے لیے مہم چلائی، آپ نے اس کے لیے لڑائی لڑی اور اب کامیابی ہو چکی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب تبدیلی کا وقت ہے۔ آخر کار اس عظیم قوم کے کندھوں سے ایک بوجھ ہٹا دیا گیا۔‘

دوسری جانب برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اعتراف کیا کہ لیبر پارٹی نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اپنی نشست جیتنے کے بعد رشی سونک نے اعتراف کیا ہے کہ لیبر پارٹی نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔

جمعے کو اپنے حامیوں سے خطاب میں انہوں نے کہا: ’لیبر پارٹی نے یہ عام انتخابات جیتے ہیں۔ میں نے سر کیئر سٹارمر کو ان کی جیت پر مبارک باد دینے کے لیے فون کیا ہے۔ آج اقتدار کی منظم انداز میں منتقلی ہو گی۔‘

سنک نے کہا کہ یہ ان کی پارٹی کے لئے ایک ’مشکل رات‘ تھی اور یہ ان کی پارٹی کے لیے ’افسوسناک‘ شکست تھی۔

سنک سے قبل ٹوریز کی وزیراعظم رہنے والی لز ٹروس بھی اپنی نشست نہیں بچا سکیں اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایوان زیریں کی تمام 650 نشستوں پر چار جولائی کو انتخابات کے لیے پولنگ برطانوی وقت کے مطابق صبح سات بجے سے رات دس بجے تک جاری ہے۔

ان انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 4515 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

ٹوری پارٹی کی قیادت موجودہ وزیراعظم رشی سونک اور لیبر پارٹی کی قیادت کیئر سٹارمر کر رہے ہیں جبکہ لبرل ڈیموکریٹس کی قیادت ایڈ ڈیوی کر رہے ہیں۔

بی بی سی، آئی ٹی وی اور سکائے کے لیے ہوئے ایگزٹ پول کے مطابق لیبر پارٹی ان انتخابات میں تقریباً 170 نشستوں کی بھاری اکثریت سے جیتنے جا رہی ہے۔

ایگزٹ پول کے حوالے سے بی بی سی کا کہنا ہے کہ اگر یہ اندازے صحیح ثابت ہوئے تو کیئر سٹارمر 410 ارکان پارلیمان کے ساتھ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

بی بی سی نے ایگزٹ پول کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کی تعداد کم ہو کر 131 رہ جائے گی جو جنگ کے بعد کی تاریخ میں ان کی سب سے کم تعداد ہے۔

کُل 650 میں سے انگلینڈ میں 543 اور سکاٹ لینڈ میں57 سیٹیں ہیں جبکہ ویلز میں 32 اور شمالی آئرلینڈ میں 18 نشستیں ہیں۔

برطانیہ کی ٹوری، لیبر اور لیبرل ڈیموکریٹس پارٹیوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی رہی تھی۔ جنہوں نے اس الیکشن میں بالترتیب 635، 631 اور 630 امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ باقی چھوٹی پارٹیاں اور آزاد امیدوار بھی میدان میں ہیں۔

انتخابات کے دوران 98 مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، 459 آزاد امیدوار ہیں اور 30 فیصد خواتین ہیں۔

ان امیدواروں میں بڑی تعداد میں برٹش پاکستانی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ برٹش پاکستانی اور کشمیری امیدوار لندن، گریٹر مانچسٹر، بولٹن، بریڈ فورڈ، برمنگھم، بیڈفورڈ، ناٹنگھم، گلاسگو اور ایبرڈین جیسے شہروں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹرز کا رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے۔ ان کی عمر 18 سال سے زیادہ ہو اور یا تو وہ برطانوی، آئرش یا اہل کامن ویلتھ شہری یا برطانیہ میں مقیم ہوں یا بیرون ملک مقیم ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ ہوں۔ قیدی اور پارلیمنٹ کے غیر منتخب ایوان بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز کے ارکان ووٹ نہیں ڈال سکتے۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق چار کروڑ 60 لاکھ ووٹرز پارلیمنٹ کے 650 ارکان کو ہاؤس آف کامنز کے لیے منتخب کرنے کے اہل ہیں جبکہ ڈیموکریسی کلب کے مطابق، ملک بھر میں تقریباً 40,000 پولنگ سٹیشنز بنائے گئے ہیں۔

برطانیہ کے عام انتخابات میں فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم استعمال کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار اور پارٹی جیت جاتی ہے۔ مجموعی اکثریت کے لیے کسی بھی پارٹی کو کم از کم 326 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مجموعی حتمی نتائج کے بعد اگر حکمران پارٹی ہار جاتی ہے تو وزیر اعظم سے توقع کی جائے گی کہ وہ جمعے کو بادشاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیں گے۔ جیتنے والی پارٹی کا لیڈر پھر بادشاہ سے ملاقات کرے گا، جو ان سے حکومت بنانے کی درخواست کرے گا۔ اس کے بعد وہ نئے وزیر اعظم کے طور پر برطانوی عوام سے خطاب کے لیے ڈاؤننگ سٹریٹ جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا