ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے مرکزی ہوائی اڈے پر پہنچنے والے طیارے بڑی مقدار میں دھول جذب کر رہے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ان کے انجنوں میں جمع ہو کر ان کو ٹوٹ پھوٹ کے سنگین خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
تحقیق، جس کا ابھی پیئر ریویو جائزہ لیا جانا باقی ہے، میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر زیادہ سے زیادہ پروازوں کو رات کے وقت شیڈول کیا جائے تاکہ دھول کے اخراج سے انجنوں کو پہنچنے والے نقصان کو تقریباً ایک تہائی تک کم کیا جا سکے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ سے وابستہ اور اس مطالعے کی مرکزی مصنفہ کلیئر رائڈر نے اس حوالے سے کہا: ’دھول اور ریت طیاروں کے لیے خطرناک ہیں کیونکہ یہ پگھل کر بلیڈز پر شیشے جیسی تہہ جما دیتی ہیں یا سخت منرل کرسٹس کے ذخائر کا سبب بنتی ہیں۔ کرسٹس ہوا کے بہاؤ میں خلل ڈالتے ہیں اور زیادہ حرارت کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں انجن کو زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگرچہ فی پرواز داخل ہونے والی دھول کی مقدار بہت زیادہ نہیں ہے لیکن یہ مقدار تیزی سے جمع ہو جاتی ہے۔ ایک طیارہ جو ہر آمد اور روانگی کے دوران پانچ گرام دھول نگل لے وہ ایک ہزار پروازوں کے بعد 10 کلو گرام دھول جمع کر لیتا ہے۔
محققین نے دنیا کے کچھ مصروف ترین ہوائی اڈوں پر طیاروں میں جمنے والی دھول کا حساب لگانے کے لیے تقریباً دو دہائیوں کے سیٹلائٹ اور ماحولیاتی ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں ہفتے نیچرل ہیزرڈز نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دھول کی سب سے زیادہ مقدار طیاروں میں سب سے زیادہ دھول صحرائے صحارا، مشرق وسطیٰ اور شمالی انڈیا میں گرد و غبار کے طوفانوں کے دوران جذب ہوتی ہے۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا کہ ’ماحول میں منرل ڈسٹ ایروسول انجن کے اندرونی پرزوں پر جم کر طیاروں کے لیے خطرے کا سبب بنتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق موسم گرما کے دوران نئی دہلی میں اترنے والے طیارے سب سے زیادہ دھول جذب کرتے ہیں جو ہر آمد کے وقت اوسطاً 6.6 گرام اور روانگی کے وقت چار گرام سے زیادہ جمع ہو جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر نائجر کا نیامی ایئر پورٹ ہے جہاں طیارے ہر لینڈنگ پر 4.7 گرام جذب کرتے ہیں۔ اس کے بعد دبئی کا نمبر ہے جہاں یہ اوسط 4.3 گرام ہے۔
محققین نے یہ بھی پایا کہ طیارے لینڈنگ کی اجازت کے انتظار میں ان ہوائی اڈوں کے اوپر منڈلاتے ہوئے زیادہ دھول جذب کرتے ہیں۔
محققین نے کہا کہ ایک کلومیٹر کی اونچائی پر 10 سے 15 منٹ تک لینڈنگ کا انتظار پرواز کے ٹیک آف اور بلندی حاصل کرنے کے مراحل کے مقابلے میں زیادہ دھول جذب ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔
محققین نے یہ بھی پایا کہ گرمیوں کے دوران دہلی کے ہوائی اڈے پر ایک کلومیٹر کی اونچائی پر چکر لگانا دھول جمع کرنے کے عمل میں 50 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔
تحقیق میں مشورہ دیا گیا ہے کہ دہلی اور دبئی میں پرواز کی لینڈنگ کو رات کے وقت منتقل کرنے سے انجن کی دھول کے اخراج کو تقریباً ایک تہائی تک کم کیا جا سکتا ہے۔
محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے اور صحراؤں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی دنیا میں مزید دھول پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
لیکن موجودہ آب و ہوا کے ماڈل اس پر متفق نہیں ہیں کیونکہ دھول کے اخراج کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے جن میں بارش، مٹی میں نمی، سطح پر ہوا کے نمونے اور نباتات کا رقبہ شامل ہے۔
© The Independent