جنگلی حیات کو نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں بلکہ انسان کے پیدا کردہ انتہائی سنگین خطرات کا بھی سامنا ہے اور اب یہ صورت حال ان کے لیے دو دھاری تلوار کے مترادف ہوتی جا رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں، جیساکہ گلیشیئرز کا پگھلنا، خشک سالی اور جنگلوں میں لگنے والی آگ جیسی وجوہات کے باعث اس ماحول میں رہنے والے جانور اپنی قدرتی رہائش گاہیں چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
حالیہ دنوں میں تیندوے سمیت دیگر جنگلی حیات کے شہری علاقوں میں آ جانے کے واقعات اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملے، جس کا نتیجہ یا تو ان جانوروں کی موت کی صورت میں نکلا یا پھر انہیں وائلڈ لائف نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
انسانی عمل دخل جیسے کہ جنگلات کا کٹاؤ اور جانوروں کے لیے مخصوص علاقوں کے قریب انسانی آبادیوں، انفراسٹرکچر کی توسیع اور سڑکوں کے باعث جنگلی حیات کے لیے جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔
محکمہ جنگلات کے مطابق بنیادی طور پر نیشنل پارکس کو جو خطرات لاحق ہیں، ان میں سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ انسانی آبادی بڑھنے سے جانوروں کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی خوراک کا مسئلہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔
درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئر پگھلیں گے تو برفانی چیتوں کی نسل متاثر ہوگی، ان کے رہنے کی جگہ کم ہوتی جائے گی اور جب ان کی خوراک کا مسئلہ پیدا ہوگا تو وہ انسانی آبادیوں کی طرف آئیں گے، جس سے وہاں موجود جانوروں کو خطرات لاحق ہوں گے۔‘
بین الاقوامی ماہر ماحولیات ڈاکٹر نعیم پرویز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنگلی حیات کو انسانی رہائش گاہوں، سڑکوں، ٹرانسمیشن لائنوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی توسیع اور اس سے منسلک آلودگی جیسے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی پودوں کی نشوونما کو متاثر کر رہی ہے، اس کا مطلب ہے جانوروں کے لیے خوراک کی کمی اور رہنے کے لیے موزوں جگہوں کا ممکنہ نقصان، جس سے جنگلی حیات ہجرت پر مجبور ہوں گے، لہذا جانوروں کے لیے اہم مسائل میں ان کی رہائش گاہوں کا تقسیم ہونا اور سکڑنا شامل ہے۔
ورلڈ وائڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے مطابق دنیا بھر میں حیاتیاتی تنوع کے لیے بنیادی خطرہ قدرتی رہائش گاہوں کا نقصان ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی سینیئر مینیجر کنزرویشن حمیرا عائشہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حیاتیاتی تنوع کو درپیش خطرات آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی 21 ویں صدی میں سب سے اہم خطرہ بننے کی توقع ہے کیونکہ یہ دیگر عوامل کے ساتھ تعامل کو تیز کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اگرچہ انواع کے معدوم ہونے پر آب و ہوا کی تبدیلی کے براہ راست اثرات کے بارے میں موجود معلومات اب بھی محدود ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور جانداروں کی نسل کے معدوم ہونے کو خطرناک شرح سے بڑھا رہی ہے۔
حکام نے بتایا کہ برفانی چیتا ایک اہم مثال ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے لحاظ سے انتہائی غیر محفوظ ہے۔ 12 ممالک کے اندر ایشیا کے پہاڑوں میں رہنے والا یہ شکاری جانور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنی رہائش گاہ کا تقریباً 30 فیصد کھو سکتا ہے۔
رہائش گاہ میں اس کمی سے برفانی چیتے پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، جسے اپنے نقل مکانی والے رویے کی وجہ سے بڑے علاقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مزید برآں، سکڑتا ہوا رہائشی علاقہ برفانی چیتے کے شکار پر منفی اثر ڈالے گا۔ اس علاقے میں چرنے والے جانور رکھنے کی صلاحیت کم اور برفانی چیتے کے لیے خوراک کی دستیابی محدود ہو جائے گی۔
پاکستان وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین صفوان شہاب احمد کا کہنا ہے کہ ہم انسان ’انکروچمنٹ‘ کر رہے ہیں اور نیچر کے خلاف صف آرا ہیں، جس کا نتیجہ یقینی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
’انسانی انکروچمنٹ ہی انہیں مجبور کرتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری آبادیوں میں آ رہے ہیں۔ در حقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘
صفوان شہاب نے مزید کہا: ’جو جاندار انسانوں کے ساتھ رہنا نہیں سیکھ پا رہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری آبادیوں میں گھس کر حملے کر رہے ہیں۔
اگر وہ جنگل سے نکلتے اور شہر کی طرف آتے ہیں تو یہاں ان کے انسانوں کے ساتھ تضادات ہیں۔ ایسی صورت حال میں ترقی یافتہ ممالک کے اندر فاریسٹ پیچز لگائے جاتے ہیں، جو شہروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے بین الاقوامی فارمولا بھی ہے لیکن پاکستان کا کیس بری طرح بگڑ چکا ہے۔ ہمارے پاس جنگلات کا قدرتی رقبہ 3.5 فیصد ہے جبکہ آئیڈیل صورت حال میں یہ ملک کے کل رقبے کا 25 فیصد ہونا چاہیے۔
وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین نے کہا کہ پاکستان میں کم سے کم 10 فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہییں اور یہی اس کا آخری حل ہے۔