پشاور: طالب علم نے بنائی سولر اور بیٹری سے چلنے والی گاڑی ’تھنڈر‘

اس جیپ کا نام ’تھنڈر‘ ہے جسے پشاور انجینیئرنگ یونیورسٹی کے قائم حسن نے بنایا ہے۔ قائم کے مطابق یہ گاڑی بیٹری کے علاوہ شمسی توانائی سے بھی چل سکتی ہے۔

پشاور انجینیئرنگ یونیورسٹی کے طالب علم قائم حسن نے سولر پینل اور بیٹریز دونوں سے چلنے والی ایک گاڑی تیار کی ہے جس کا نام انہوں نے ’تھنڈر‘ رکھا ہے۔

یہ جیپ اپنی نوعیت کی پہلی گاڑی ہے جو ایک چارج میں 60 کلومیٹر تک سفر طے کرتی ہے اور 400 کلوگرام تک وزن لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دھوپ نہ ہو اور چارج بھی ختم ہو جائے تو پیٹرول سے بھی گاڑی چلانے کا آپشن موجود ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے قائم حسن سے اس گاڑی کو بنانے سے پہلے اپنے ارادے کے بارے میں بتایا کہ’ میں نے انجینیئرنگ یونیورسٹی پشاور سے مکینیکل انجینیئرنگ کی ہے۔ انجینیئرنگ مکمل کرنے کے بعد آپ کو فائنل پروجیکٹ ملتا ہے جس میں آپ کچھ بھی بنا سکتے ہیں۔‘

’میں نے اپنے سپروائزر سے یہ گاڑی بنانے کا پوچھا تو انہوں نے کہا سادہ نہیں بلکہ منفرد گاڑی بنائیں، مارکیٹ میں کوئی نئی چیز ہو، یہ نارمل گاڑی تو سب کے پاس ہے۔‘

قائم حسن کہتے ہیں کے اس گاڑی کو بنانے میں ان کو شروعات میں کافی پیچیدگیاں جھیلنی پڑیں۔ قائم نے بتایا کہ’ یہ چیسز پاکستان میں پہلی بار ڈیزائن ہو رہا تھا۔ پوری گاڑی سرے سے بنانی تھی اور وقت بہت کم تھا۔‘

’اس گاڑی کا اہم فیچر 200 سی سی کا انجن ہے جس میں 2.2 کلو واٹ کی الیکٹرک موٹر اور سولر چارجنگ آپشن ہے۔ اس میں ایک چارج پر آپ کو الیکٹرک پر سولر کے بغیر60 کلومیٹر کی رینج ملے گی جو تین یونٹ میں چارج ہو جاتی ہے۔‘

’60 کلومیٹر سے اوپر جائیں تو یہ خود بخود انجن سٹارٹ کر لے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انجن میں آپ کو35 سے 40 کلومیٹر کی رینج دے گی۔ آپ جب انجن سٹارٹ کر لیں گے تو یہ نہیں کہ خالی آپ گھر تک جائیں گے یہ انجن سٹارٹ ہونے کے بعد بیٹری پیک کو بھی چارج کرے گی۔ مطلب آپ گھر تک گئے تو آپ کی بیٹری بھی ریچارج ہو جائے گی۔ یہ ماحول دوست گاڑی ہے۔‘

پشاور یونیورسٹی کے مکینیکل ڈپارٹمنٹ میں لیکچرار عدنان رشید کا کہنا ہے کہ ’تھنڈر جیپ بنانے میں ان طلبہ نے بہت محنت کی ہے اور چھ مہینے کی کوشش اور محنت سے سولر پینل اور بیٹری سے چلنے والی ہائیبرڈ گاڑی بنائی جو پاکستان کی پہلی گاڑی ہے۔‘

‌انجینیئر عدنان رشید کے مطابق ’اگر ایسے بچوں کو سپورٹ کیا جائے تو یہ اس سے اچھی چیزیں بنا سکتے ہیں اور بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ سارا کام انہوں نے خود ہی کیا ہے جہاں پہ ان کو رہنمائی چاہیے ہوتی تھی تو ہم ڈسکیشن کرتے۔ سٹوڈنٹس نے انالیسز کیے ہیں اور یہ ساری کیلکولیشنز ہیں جس پر طلبہ نے یہاں پہ اپنی پریزنٹیشنز دیں جہاں پروفیسر اور ٹیچرز موجود تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ ہمارے بچے بہت آگے جا سکتے ہیں اگر حکومت ان طلبہ کی حوصلہ افزائی کرے تو مزید بہتر کام کر سکتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی