بنگلہ دیش: آٹھ سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے خلاف احتجاج جاری

بنگلہ دیش میں ایک آٹھ سالہ بچی کی قریبی رشتے دار کے ہاتھوں مبینہ زیادتی اور قتل کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے ہیں۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں خواتین سکول طالبہ کے ریپ اور قتل کے خلاف نو مارچ 2025 کو بانس کی لاٹھیاں اٹھائے ایک مظاہرے میں شریک ہیں (منیر الزماں / اے ایف پی)

بنگلہ دیش میں ایک آٹھ سالہ بچی کی قریبی رشتے دار کے ہاتھوں مبینہ زیادتی اور قتل کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے ہیں۔

یہ واقعہ رواں ماہ کے اوائل میں مگورا شہر میں اس وقت پیش آیا جب متاثرہ بچی اپنی بڑی بہن کے گھر گئی تھی۔ پولیس نے متاثرہ بچی کی بہن کے سسر کو زیادتی کے شبہے میں گرفتار کر لیا ہے۔

متاثرہ بچی چھ دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہی اور متعدد ہسپتالوں میں منتقلی کے باوجود جانبر نہ ہو سکی۔

جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے اس کا انتقال ہو گیا جس کے بعد طلبہ اور خواتین کی قیادت میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔

بچی کو تین بار دل کا دورہ پڑا اور حکومت کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اگرچہ ڈاکٹروں نے دو بار اس کی حالت کو مستحکم کر لیا تھا لیکن تیسری بار دل کی ڈھرکن بحال کرنے میں ناکام رہے۔

بچی کی جسد خاکی کو فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے مگورا منتقل کیا گیا جہاں ہزاروں افراد احتجاج میں شریک تھے۔ مشتعل ہجوم نے ملزم کے گھر پر دھاوا بول کر اسے نذر آتش کر دیا جبکہ ہزاروں افراد نے متاثرہ بچی کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔

متاثرہ بچی کی والدہ نے میڈیا کو بتایا: ’مجھے امید تھی کہ میری بیٹی بچ جائے گی۔ اگر وہ زندہ رہتی تو میں اسے کبھی اکیلے کہیں نہ جانے دیتی۔‘

متاثرہ بچی کی 18  سالہ بہن نے مقامی اخبار ’ڈیلی سٹار‘ کو بتایا کہ خاندان ابھی تک صدمے میں ہے اور بچی کی موت کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میری ماں کے ابھی تک آنسو خشک نہیں ہوئے۔‘

واقعے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاجی مارچ کیا اور متاثرہ بچی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی حالانکہ پولیس نے ’عوامی نظم و ضبط برقرار رکھنے‘  کے لیے دارالحکومت کے اہم مقامات پر احتجاج پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم مظاہرین تاحال احتجاج جاری رکھنے پر بضد ہیں۔

طلبہ رہنما ریتا داس نے دی انڈپینڈنٹ کو اس بارے میں  بتایا: ’بنگلہ دیش کو خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے بہتر قوانین کی ضرورت ہے۔ ہمیں زیادتی کی قانونی تعریف واضح کرنی چاہیے۔ ہمیں متاثرین کے لیے فوری انصاف چاہیے، نہ کہ لامتناہی مقدمات۔‘

ان کے بقول: ’بنگلہ دیش میں اب بھی نوآبادیاتی دور کا قانون نافذ ہے جو ریپ کی تعریف کو صرف مخصوص جسمانی تعلق تک محدود رکھتا ہے۔‘

کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ محمد یونس کی عبوری حکومت خواتین اور بچوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے اور ملک میں جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔

ایک 19  سالہ طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جولائی میں ہونے والے احتجاج کے بعد سے بنگلہ دیش میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ نہ تو بچوں کے لیے کوئی سکیورٹی ہے، نہ خواتین کے لیے اور نہ مردوں کے لیے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر فعال دکھائی دیتے ہیں جب کہ ملک پچھلے سال کی بدامنی سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

پولیس نے بچی کی بہن کے سسر، ساس، شوہر اور دیور کو گرفتار کر لیا ہے۔

متاثرہ بچی کے بہنوئی کے والد ہیتو شیخ نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے بچی کو تنہا پا کر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پولیس افسر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ملزم کو ہفتے کی دوپہر سینیئر جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

متاثرہ بچی کی والدہ نے پولیس شکایت میں الزام لگایا کہ بچی کو پانچ مارچ کی رات ریپ کا نشانہ بنایا گیا، جب وہ اپنی بڑی بہن کے گھر پر تھی۔

بڑی بہن نے پولیس کو بتایا کہ اس بہن نے کہا تھا کہ ہیتو شیخ نے اسے ایک خالی کمرے میں لے جا کر ریپ کا نشانہ بنایا اور جب وہ چیخنے کی کوشش کر رہی تھی تو اسے مارا پیٹا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب بڑی بہن نے اس واقعے کی اطلاع اپنی ماں کو دینے کی کوشش کی تو ان کے شوہر نے اس پر تشدد کیا اور بچی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کیا اور ملزمان کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیا۔

وزیر داخلہ کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل جہانگیر عالم چوہدری نے کہا: ’جو بھی خواتین کے خلاف تشدد یا زیادتی میں ملوث پایا گیا، اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔‘

انسانی حقوق کی تنظیم ’عین و سیلش کیندرا‘ کے مطابق گذشتہ 10 سالوں میں 18 سال سے کم عمر کی 5,632 بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

رواں سال کے پہلے دو مہینوں میں کم از کم 52 بچوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ریپ کے بہت سے واقعات بدنامی کے خوف کے ساتھ ساتھ سیاسی وجوہات کی بنا پر اور بااثر افراد کی جانب سے ملزمان کو معافی اور تحفظ دینے کے کلچر کی وجہ سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کمشنر، شیخ محمد سجات علی نے میڈیا سے’ریپ‘ کا لفظ استعمال نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ وہ اسے ’ناگوا‘ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ ریپ کی بجائے ’خواتین پر تشدد‘ یا ’خواتین پر جبر‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جائیں۔

ڈاکٹر یونس کے قانونی مشیر عاصف نذرول نے رواں ہفتے کہا کہ خواتین کے خلاف جنسی زیادتی سے متعلق موجودہ قانون سازی میں ترمیم کی جائے گی تاکہ تحقیقات کا وقت 30 دن سے کم کرکے 15 دن کر دیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریپ کے مقدمات کا ٹرائل 180 دن کے بجائے 90 دن میں مکمل کیا جائے گا۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا: ’حکومت نے تمام ضروری اقدامات تیزی سے اٹھائے ہیں۔ حکام کی جانب سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا