ایک ایسے بڑے شہر کا تصور کریں، جو ایک تباہ کن سمندری طوفان کے بعد بحالی کی کوشش کر رہا ہے۔ سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں، بجلی کا نظام مفلوج ہے اور مقامی حکام بے پناہ دباؤ کا شکار ہیں۔ ہنگامی امدادی ٹیمیں اپنی پوری کوشش کر رہی ہیں مگر صورت حال قابو میں نہیں آ رہی۔
ایسے میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ڈرون فضا سے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں جب کہ جدید خودکار نظام سیٹلائٹ تصاویر اور زمین و فضا میں نصب سینسرز سے موصول ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہے ہیں تاکہ ان علاقوں کی نشاندہی کی جا سکے، جو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔
دوسری طرف مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹس کھانے، پانی اور طبی سامان ان علاقوں تک پہنچا رہے ہیں، جہاں انسانی امدادی کارکنوں کا پہنچنا ممکن نہیں۔ ہنگامی ٹیمیں جو مصنوعی ذہانت کی فراہم کردہ رہنمائی اور تجزیاتی فہم سے کام لے رہی ہیں، اپنی کوششوں کو مؤثر طریقے سے منظم کر رہی ہیں اور امدادی دستے ان مقامات پر بھیج رہی ہیں، جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
یہ سب اب سائنس فکشن کا حصہ نہیں رہا۔ ’پیٹرنز‘ نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے تازہ مقالے میں، ہم نے دلیل دی ہے کہ یہ ایک ابھرتی ہوئی اور ناگزیر حقیقت ہے۔
اجتماعی ذہانت کسی گروہ یا کئی گروہوں کے افراد کی مشترکہ ذہانت کو کہتے ہیں جہاں مختلف مہارتوں کے حامل افراد، جیسے آگ بجھانے والے اور ڈرون آپریٹرز مل کر بہتر آئیڈیاز اور حل تلاش کرتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اس انسانی اجتماعی ذہانت کو مزید مؤثر بنا سکتی ہے اور بڑے پیمانے پر بحرانوں سے نمٹنے کے طریقہ کار کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے۔ اسے ہائبرڈ کلیکٹیو انٹیلی جنس کہا جاتا ہے۔
روایتی آلات یا انسانی فہم پر انحصار کرنے کی بجائے ماہرین مصنوعی ذہانت کی مدد سے بڑی تعداد میں ڈیٹا پروسیس کر سکتے ہیں، پیٹرنز کی شناخت کر سکتے ہیں اور درست پیش گوئیاں کر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت انسانی فیصلہ سازی کو بہتر بنا کر تیز اور زیادہ درست بصیرت فراہم کرتی ہے۔ چاہے وہ طبی تحقیق ہو، آفات سے نمٹنا ہو یا ماحولیاتی تحفظ۔
مصنوعی ذہانت یہ سب مختلف طریقوں سے ممکن بناتی ہے۔ مثال کے طور پر بڑے ڈیٹا سیٹس کا تجزیہ کر کے ایسی معلومات ظاہر کرنا جو انسانوں کو دریافت کرنے میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت جسمانی کاموں میں بھی حصہ لے سکتی ہے۔ مثلاً پیداواری شعبے میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹس اسمبلی لائنوں کو خودکار بنا کر کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں اور مشینوں کا ڈاؤن ٹائم کم کر سکتے ہیں۔
اسی طرح معلومات کی ترسیل بھی انتہائی اہم ہے، جہاں مصنوعی ذہانت ڈیٹا کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے، جس سے انسانی ٹیمیں زیادہ مؤثر طریقے سے ہم آہنگ ہو کر تیزی سے ڈیٹا پر مبنی فیصلے کر سکتی ہیں۔ آخر میں مصنوعی ذہانت سماجی عمل انگیز کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے جو انسانی ٹیموں میں زیادہ مؤثر تعاون کو فروغ دیتی ہے یا انسانوں اور مشینوں پر مشتمل ہائبرڈ ٹیمیں بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان تمام پہلوؤں میں بہتری لانے سے مکمل اور باہم منسلک نظام زیادہ موافق اور ذہین بن سکتا ہے۔
ہم پہلے ہی مصنوعی ذہانت سے تقویت یافتہ اجتماعی ذہانت کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ آفات سے نمٹنے کے دوران مصنوعی ذہانت کے سسٹمز سیٹلائٹ تصاویر اور سینسر ڈیٹا کا تجزیہ کر کے خطرے کا اندازہ لگاتے ہیں، جس سے انسانی امدادی ٹیموں کو بہتر فیصلہ سازی اور وسائل کی مؤثر تقسیم میں مدد ملتی ہے۔
طبی شعبے میں مصنوعی ذہانت پہلے ہی ڈاکٹروں کو تیزی سے اور زیادہ درست تشخیص کرنے میں مدد دے رہی ہے کیوں کہ وہ بڑے پیمانے پر مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کر سکتی ہے۔ میڈیکل ٹیمیں اپنی مہارت کو مصنوعی ذہانت کی تجاویز کے ساتھ ملا کر بہترین علاج کے منصوبے تیار کرتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹس سرجری کے نازک کاموں میں مدد دے سکتے ہیں، جس سے زیادہ درستی ممکن ہو سکتی ہے۔
میڈیا میں مصنوعی ذہانت عالمی ذرائع سے خبریں ترتیب دے کر ان کی تصدیق کرتی ہے جس سے صحافیوں کو حقائق کی جانچ پڑتال اور غلط معلومات کو بے نقاب کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرح ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں خبروں کی سچائی اور اعتبار کو تقویت دی جا سکتی ہے، تاہم مصنوعی ذہانت غلط معلومات پھیلانے میں بھی کردار ادا کر سکتی ہے جیسے ڈیپ فیک ویڈیوز، جن میں سیاست دانوں کی جعلی ویڈیوز بنا کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
سرکاری شعبے میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والی پالیسی سیمولیشنز حکومتوں کو ضوابط کے اثرات کا اندازہ لگانے میں مدد دیتی ہیں۔ عوامی سطح پر جمع کردہ آرا کو مصنوعی ذہانت کے تجزیے کے ساتھ ملانے سے عوامی رائے اور جذبات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ بھی مصنوعی ذہانت سے طاقت حاصل کرنے والی اجتماعی ذہانت سے مستفید ہو رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت سسٹمز آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کی نقل و حرکت سے متعلق ڈیٹا کے انداز کا تجزیہ کر کے انسانی کوششوں کی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں تاکہ ماحولیاتی مسائل کو زیادہ مؤثر انداز میں حل کیا جا سکے۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے طاقت پانے والی اجتماعی ذہانت پہلے ہی ہماری دنیا کے پیچیدہ ترین مسائل کو حل کرنے کے طریقے بدل رہی ہے۔ اصل نکتہ یہ سمجھنا ہے کہ مصنوعی ذہانت ایک ساتھی ہے نہ کہ مد مقابل۔ جب ہم انسانی تخلیقی صلاحیت، بصیرت اور اخلاقیات کو مصنوعی ذہانت کی ڈیٹا پروسیسنگ کی طاقت کے ساتھ جوڑتے ہیں تو امکانات حیرت انگیز حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
مستقبل کی طرف دیکھیں تو مصنوعی ذہانت کی صلاحیتیں مزید دلچسپ ہو جاتی ہیں۔ چاہے وہ صحت کے عالمی چیلنجز، مثال کے طو پر وباؤں کی روک تھام ہو، یا موسمیاتی بحران کے حل کی تلاش، مصنوعی ذہانت ان مسائل کے حل میں مرکزی کردار ادا کرے گی جنہیں کبھی ناقابل حل سمجھا جاتا تھا، لیکن وسیع امکانات کے ساتھ ایک بڑی ذمہ داری بھی آتی ہے۔
یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس تعاون کی سمت کا تعین کیسے کرتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ مصنوعی ذہانت کو ایک ذمہ دار اور اخلاقی انداز میں استعمال کیا جائے، ایسے طریقے جو انسانی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے بجائے انہیں مزید مضبوط کریں۔ ہمیں ایسی پالیسیاں اور فریم ورک تشکیل دینے میں کردار ادا کرنا ہوگا جو شفافیت، انصاف اور شمولیت کو فروغ دیں اور انسانوں اور مشینوں کے تعلق کی نئی سوشیالوجی ترتیب دیں۔
صنعتوں، حکومتوں اور کمیونٹیز کے درمیان تعاون مصنوعی ذہانت کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم مل کر کام کریں، تو ایک ایسا مستقبل تشکیل دیا جا سکتا ہے جہاں مصنوعی ذہانت نہ صرف انسانی ذہانت کو تقویت دے، بلکہ آنے والے چیلنجز کو حل کرنے میں بھی مدد کرے، اور یوں ایک زیادہ منصفانہ، پائیدار، اور خوشحال دنیا کی بنیاد رکھ سکے۔
نوٹ: یہ تحریر ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی، جسے اجازت سے یہاں شائع کیا گیا۔