سولر انرجی پر ٹیکس: سرکاری ابہام کا مارکیٹ پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

ملک بھر میں شہریوں کی بڑی تعداد حسب حیثیت سولر پینلز لگانے میں مصروف ہے لیکن ان پر ٹیکس اور نیٹ میٹرنگ پر پابندی کی خبروں نے شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کے لیے پینلز فروخت کرنے والوں اور خریداروں میں پریشانی کی لہر دوڑا دی ہے۔

پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں تقریباً ہر مہینے ہونے والے اضافے نے شہریوں کو توانائی کے متبادل اور سستے ذرائع استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

لاہور سمیت ملک بھر میں شہریوں کی بڑی تعداد حسب حیثیت سولر پینلز لگانے میں مصروف ہے لیکن حکومت کا سولر توانائی پر ابہام اور سولر پینلز پر ٹیکس اور نیٹ میٹرنگ میں تبدیلی کی خبروں نے شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کے لیے پینلز فروخت کرنے والوں اور خریداروں میں پریشانی کی لہر دوڑا دی ہے۔

سولر پینلز فروخت کرنے و الے تاجر عابد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کو چاہیے سولر پینلز کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکس اور نیٹ میٹرنگ پر پابندی کے حوالے سے اجتناب کرے۔

’سولر پینل کے استعمال سے نہ صرف شہریوں کو مہنگی بجلی کم سے کم استعمال کرنا پڑے گی بلکہ حکومت پر بھی بجلی کی زیادہ پیداوار کا بوجھ کم ہو جائے گا۔

’کچھ ماہ پہلے تک سولر پینلز کا فی واٹ کا نرخ 120 روپے تھا جو اب کم ہو کر 40 روپے ہو گیا ہے۔ قیمتوں میں اس غیر معمولی کمی سے شہریوں میں خریداری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔‘

خریداروں نے کہا کہ ’بجلی کے 65 روپے تک یونٹ نے گرمی میں اے سی، روم کولر یا پنکھے چلانا بھی مشکل بنا رکھا ہے۔ آئے روز بجلی کی قیمت کسی نہ کسی مد میں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس لیے پیسے جمع کر کے سولر پینلز لگوا رہے ہیں تاکہ گرمی کی شدت میں آسانی سے گزارہ کیا جا سکے۔

’حکومت کو چاہیے کہ سولر پینل کی مانگ میں اضافے کے ساتھ ٹیکس لگا کر اس کی قیمت میں اضافے کا سبب نہ بنے۔‘

دوسری جانب وفاقی وزیر مملکت علی پرویز ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ ’حکومت سولر پینلز پر ٹیکس عائد کر رہی ہے اور نہ ہی نیٹ میٹرنگ پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ یہ سب افواہیں ہیں لوگ ان پر یقین نہ کریں۔‘

اسلام آباد میں جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ ’ پالیسی میں کوئی تبدیلی ہوئی تو وزیراعظم کی مشاورت سے کی جائے گی۔ شمسی توانائی کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی جاری رکھیں گے۔‘

البتہ انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے اس پر کویی واضح پوزیشن نہیں لی اور کہا کہ ’انتظار کریں دو دن میں سب معلوم ہو جائے گا۔‘

لیکن بعض وزرا کہہ چکے ہیں کہ آگے چل کر سولر سے متعلق فیصلہ تبدیل بھی ہوسکتا ہے جس سے صارفین کے خدشات بدستور برقرار ہیں۔ 

پاور ڈویژن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ’نیٹ میٹرنگ سے سسٹم میں بجلی شامل ہونے سے گھریلو اور صنعتی صارفین سمیت حکومت کو بھی سبسڈی کی شکل میں ایک روپے 90 پیسے کا بوجھ برادشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کےنتیجے میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔
’یہ  ایک روپے 90 پیسے غریبوں کی جیب سے نکل کر متوسط اور امیر طبقے کے جیبوں میں جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہا تو غریب صارفین کے بلوں میں کم از کم 3.35 روپے فی یونٹ کا مزید اضافہ ہو گا۔‘

ایک اندازے کے مطابق پاکستان سولر انرجی مارکیٹ کا سائز 2024 میں 1.41 گیگا واٹ سے بڑھ کر 2029 تک 9.53 گیگا واٹ ہو جائے گا۔

پاکستانی حکومت نے بھی سمشی توانائی کے لیے کافی بڑے اہداف مقرر کر رکھے ہیں جیسے کہ 2030 تک ملک کی 30 فیصد بجلی قابل تجدید ذرائع سے آئے گی۔ 

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاور ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق 2017 کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کا مقصد سسٹم میں متبادل توانائی کو فروغ دینا  تھا مگر 2017 کے بعد اب سولارائزیشن میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اس لیے اب نئے نرخ دینے کی ضرورت ہے۔‘

پاور ڈویژن کے مطابق ’ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کر رہے ہیں جن سے غریب کو مزید بوجھ سے بچایا جا سکے۔ ڈیڑھ سے دو لاکھ نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی سرمایہ کاری کو تحفظ دیں گے۔‘

لیسکو کے مطابق لاہور ریجن میں ابھی تک 533 میگا واٹ بجلی کی رسد کم ہوچکی ہے، جس کی وجہ نیٹ میٹرنگ سے سسٹم میں شامل ہونے والی بجلی اور اپنے طور پر سولر پینلز سے شہریوں کی ضرورت پورا ہونا ہے۔ تاہم انڈسٹری بھی بڑی تعداد میں بند ہوئی اور اس سے بھی سسٹم پر دباؤ کم ہوا ہے۔

حکومت کی پالیسی کی مطابق نیٹ میٹرنگ کی جا رہی ہے جس کا ٹیرف صارفین کے بجلی خرچ کرنے کے مطابق رکھا جا رہا ہے۔‘ 

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کے ذریعے حاصل ہونے والی بجلی کا ریٹ 21 روپے مقرر کیا گیا ہے، جب کہ گرڈ سے دی جانے والی بجلی کا فی یونٹ ریٹ اس ماہ 65 روپے تک پہنچ چکا ہے۔

لہذا کئی صارفین کی جانب سے زیادہ سے زیادہ میگا واٹ کا سولر پینل لگایا جا رہا ہے تاکہ ان کے استعمال سے ڈبل یونٹ نیٹ میٹرنگ سے نظام میں جائیں اور انہیں بوقت ضرورت استعمال ہونے والی بجلی کے اضافی یونٹ کی قیمت ادا نہ کرنا پڑے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت