سیمنٹ ڈیلرز کی ودہولڈنگ ٹیکس کے خلاف ہڑتال، سپلائی بند

پاکستان سیمنٹ ڈیلرز ایسو سی ایشن کے چیئرمین ساجد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے ہڑتال کر دی ہے اور یہ تب تک جاری رہے گی جب تک حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نہیں نکالتی۔‘

ڈی جی خان سیمنٹ کی فیکٹری میں سیمنٹ کی بوریاں سپلائی کے لیے تیار رکھی ہیں تاہم سیمنٹ ڈیلرز ایسوسی ایشن نے ملک بھر میں ہڑتال کی ہوئی ہے (ڈی جی خان سیمنٹ)

سیمنٹ ڈیلرز ایسوسی ایشن بھی حکومت کی جانب سے حالیہ بجٹ میں لاگو کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے خلاف ہڑتال پر چلے گئے اور ملک بھرمیں سیمنٹ کی سپلائی بند کر دی ہے۔

پاکستان سیمنٹ ڈیلرز ایسو سی ایشن کے چیئرمین  ساجد علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم نے ہڑتال کر دی ہے۔ کسی ڈیلر نے سیمنٹ فیکٹریوں سے مال نہیں اٹھایا۔ حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ اسے کتنا ریوینیو لاس ہو رہا ہے اور ہڑتال تب تک جاری رہے گی جب تک حکومت ہمارے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نہیں نکالتی۔‘

ساجد علی کا کہنا تھا کہ حکومت نے اسمبلی سے جو حالیہ بجٹ پاس کیا ہے اس پر یکم جولائی 2024 سے پورے ملک میں عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

’بجٹ میں ٹیکسسز یہ دیکھے بغیر ہی بڑھا دیے گئے کہ کیا کوئی ان ٹیکسسز کے ساتھ کام کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم سیمنٹ کے ڈسٹری بیوٹر ہیں ہم کمپنیوں سے سیمنٹ اٹھاتے ہیں اور مارکیٹ میں اس کی سپلائی دیتے ہیں اس میں ہمیں 10، آٹھ،  یا 12 روپے بچتے ہیں۔ ہم نے اپنے دفتر کے اخراجات، دوسرے برانڈز کے ساتھ مقابلے بازی بھی انہیں پیسوں کے اندر ہی کرنی ہے۔

’حکومت نے جو بجٹ پاس کیا اس پر ایف بی آر نے  ٹیکس آرڈینینس کے انڈر سیکشن 236 ایچ کے تحت ٹیکس کی شرح نان فائلر پر ایک فیصد سے بڑھا کر دو عشاریہ پانچ فیصد کر دی ہے جبکہ ٹرن اوور ٹیکس ریٹیلر اور ڈیلر پر بھی لاگو کیا گیا۔

’سیمنٹ کی قیمت اس وقت 1450 روپے فی بوری ہے۔ دو عشاریہ پانچ فیصد کا مطلب 37 روپے بنتا ہے، اب میں اگر کما ہی 10 روپے رہا ہوں تو میں 37 روپے ایف بی آر کو کیسے اور کہاں سے دے دوں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت سے ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھیں ہم سب رجسٹرڈ لوگ ہیں اور ٹیکس دہندہ ہیں۔ ہم جتنا سیمنٹ اٹھاتے ہیں ایف بی آر کو سب معلوم ہوتا ہے ہم کہتے ہیں کہ طریقہ کار بدل لیں ہم اس سے زیادہ ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن کوئی ہماری بات ہی سننے کو تیار نہیں۔‘

پاکستان سیمنٹ ڈیلرز ایسو سی ایشن کے چیئرمین  ساجد علی کا کہنا تھا کہ حکومت جب بجٹ بنا رہی تھی ہم نے انہیں اپنی ایسوسی ایشن کی جانب سے سفارشات بھیجی تھیں لیکن ان پر غور ہی نہیں کیا گیا۔ حکومت تو خود کہتی ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنایا ہے۔ انہیں زمینی حقائق کا کیا معلوم؟

ان کے مطابق: ’جب کمپنی تھیلے پر قیمت چھاپ کر بھیجتی ہے اس میں ویلیو ایڈیشن ہوتی ہی نہیں جس چیز میں ویلیو ایڈیشن نہیں ہے اس پر آپ آگے ٹیکس کہاں پر لگائیں گے؟‘

دوسری جانب ماہر اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے  لگائے جانے والے نئے ٹیکس خاص طور پر ودہولڈنگ ٹیکس کا نقصان جہاں مزید مہنگائی کی صورت میں سامنے آئے گا وہیں یہ ٹیکس چوری کا سبب بھی بنے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فہد علی کے مطابق فلور ملز یا سیمنٹ انڈسٹری کو حکومت نے اپنا ودہولڈنگ ٹیکس ایجنٹ بنایا ہوتا ہے یعنی جب یہ اپنی مصنوعات آگے ہول سیلرز، ڈیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو دیتے ہیں تو اس کے اوپر انکم ٹیکس کی مد میں کچھ ٹیکس کو ودہولڈ کر لیتے ہیں یعنی یہ کمپنیاں یہ ٹیکس لگا کر حکومت کو ٹرانسفر کرتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ود ہولڈنگ ایجنٹ کی وجہ  سے بہت سے مسائل ہوتے ہیں اور ٹیکس کی چوری بھی بڑھ جاتی ہے۔

ڈاکٹر فہد علی کے خیال میں ’ریاست نے عوام کے لیے آسانی پیدا کرنے کی بجائے اس نے ایک طریقہ یہ اپنایا کہ وہ مینوفیکچرنگ فیکٹری کو ودہولڈنگ ایجنٹ بنا دیتی ہے وہ جب آگے اپنی مصنوعات دیتے ہیں تو اگلی پارٹی سے ایڈوانس انکم ٹیکس لے لیتے ہیں اب یہ ایک براہ راست ٹیکس کو اکٹھا کرنے کا بالواسطہ طریقہ ہے۔‘

ڈاکٹر فہد کے مطابق اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ جو اگلی پارٹی ہے وہ اس ٹکس کو اپنے آگے کنزیومر تک منتقل کر دیتی ہے جس کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں بھی ہوگا اور سیمنٹ یا فلار سیکٹر کے اندر ٹیکس چوری کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

معاشی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکسسز کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے اور ٹیکس دینے کے بعد ان کی آمدن کم ہو گئی ہے۔

’ہماری معشیت کا تقریباً 82 سے 83 فیصد حصہ ہاوس ہولڈ کنزمپشن ہے جس میں کھانا پینا، رہنا سہنا، آمد و رفت وغیرہ ہے، جب ہم ان پر ٹیکسسز لگا کر عوام کی آمدن کو کم کر دیں گے تو ظاہری بات ہے کہ وہ اپنی ضروریات کو کم کرتے ہوئے خریدو فروخت بھی کم کریں گے جس کا اثر ہمارے جی ڈی پی پر بھی ہو گا اور ہماری گروتھ ریٹ پر بھی ہو گا۔‘

ماہر اقتصادیات قیص اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کا جہاں داؤ لگ رہا ہے وہاں ٹیکس لے رہی ہے تین اقسام کے ٹیکس لیے جا رہے ہیں جس میں انکم ٹیکس ہے، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس۔ جو ٹیکس دہندہ ہیں ان پر کم ٹیکس ہے جو نادہندہ ہیں ان پر زیادہ ٹیکس ہیں لیکن اس کا فیصلہ کون کرتا ہے کہ آپ ٹیکس دہندہ ہیں یا نا دہندہ ہیں۔

’پہلے 45 فیصد ٹیکس ادا کر دیں اس کے بعد اسے واپس لینے کے لیے درخواست دیں وہ واپس ہو نہ ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ نئے ٹیکسز سے بہت فرق پڑ رہا ہے کیونکہ پہلے ہی 23 سے 24 فیصد مہنگائی ہے اور یہ مزید بڑھے گی پچھلے سال 26 فیصد سے 32 فیصد تک افرط زر کی شرح بڑھی اس سال بھی جائے گی۔

یاد رہے گذشتہ ماہ وفاقی حکومت نے بجٹ 2024 -25 پیش کیا جس میں 13 (ٹریلین) کھرب روپے ٹیکس کی مد میں اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت