حکومت پنجاب نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کے پیش نظر کسانوں سے زرعی انکم ٹیکس کی وصولی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
محکمہ ریونیو اور محکمہ خزانہ کی جانب سے تیار کردہ ابتدائی تجاویز کی دستاویزات کے مطابق حکومت آئندہ سال یکم جولائی 2025 سے 12 ایکڑ سے زائد زمین رکھنے والے کاشت کاروں کی آمدن پر ٹیکس میں اضافے پر غور کر رہی ہے۔
اس حوالے سے محکمہ خزانہ پنجاب نے آئی ایم ایف کی شرائط صوبائی حکومت کے سامنے رکھ دی ہیں اور زرعی انکم ٹیکس پر وفاق کی تیار کردہ سلیب بھی حکومت کو پیش کردی گئی ہیں۔
اور اب متعلقہ حکام سے تجاویز لے کر اضافے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
حکومت پنجاب نے رواں سال بجٹ میں کسانوں کے لیے چار سو ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان بھی کیا اور اسے بجٹ میں بھی رکھا گیا ہے۔ جو سبسڈی کی مد میں کسان کارڈ کے ذریعے کسانوں کو دیا جائے گا۔
محکمہ خزانہ پنجاب کے حکام کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کی شرائط پر آئندہ سال کے لیے زرعی آمدن پر ٹیکس میں اضافے کی تجاویز زیر غور ہیں تاہم ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘
کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر نے کہا ہے کہ ’حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر اگر انکم ٹیکس میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تو پہلے ریجنل پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی یقینی بنائے۔ ہمیشہ سے زراعت کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا اور اب ٹیکس لگانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ جس سے اس شعبے میں مزید مسائل پیدا ہوں گے اور کاشت کار مالی مشکلات کا شکار ہوں گے۔‘
ماہر زراعت محمود نواز شاہ کے مطابق: ’دیگر شعبوں کی طرح زرعی آمدن پر ٹیکس میں اضافہ ریاست چلانے کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن حکومت کو چاہیے جس طرح شہری یا انڈسٹریل علاقوں میں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں وہ کسانوں کو بھی دی جائیں۔‘
زرعی آمدن پر ٹیکس تجاویز
حکومت پنجاب کی مجوزہ زرعی ٹیکس تجاویز کی انڈپینڈنٹ اردو کو موصول دستاویز کے مطابق چھ سے آٹھ لاکھ اور آٹھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدن والے کسانوں سے زرعی انکم ٹیکس ایک ہزار سے 20 ہزار روپے تک سالانہ وصول کرنے کی سفارشات ہیں۔
اسی طرح 12 سے 22 لاکھ روپے زرعی آمدن پر ٹیکس 57 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 80 ہزار روپے کرنے کی تجاویز ہیں۔
20 سے 24 لاکھ سالانہ زرعی آمدن پر ٹیکس 60 ہزار سے دو لاکھ 30 ہزار روپے کرنے کی سفارشات ہیں۔
24 سے 32 لاکھ سالانہ زرعی آمدن پر زرعی انکم ٹیکس دو لاکھ 30 ہزار روپے سے چار لاکھ 30 ہزار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ 32 سے 41 لاکھ روپے سالانہ زرعی آمدن پر سالانہ زرعی ٹیکس چار لاکھ 45 ہزار سے سات لاکھ روپے کرنے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
یہ تجاویز محکمہ خزانہ کی جانب سے پنجاب حکومت کو پیش کر دی گئی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ خزانہ حکام کے مطابق: ’ابھی تک ان تجاویز پر غور جاری ہے مگر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اگر کوئی فیصلہ ہوتا بھی ہے تو یہ ٹیکس یکم جولائی 2025 سے لاگو ہوگا۔ حکومت نے رواں سال بجٹ میں کسی ٹیکس میں نہ اضافہ کیا نہ ہی کوئی نیا ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔‘
زرعی انکم ٹیکس میں متوقع اضافے سے زراعت پر اثرات
کسان اتحاد پاکستان کے صدر خالد کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ریاست کے پاس اس وقت کوئی سیکٹر نہیں جو نمو کی جانب راغب ہو صرف زراعت میں معاشی گروتھ بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ہماری زرعی معاشی پیداوار 6.25 ہے حکومت کو چاہیے ایسے اقدام کرے کہ اس میں مزید اضافہ ہو نہ کہ ایسے فیصلے کرے کہ اس میں بھی کمی ہو جائے۔ اس شعبے کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔‘
خالد کھوکھر نے کہا کہ ’لاہور میں سینیٹری ورکرز نے عید پر ایک دن صفائی کی تو وزیر اعلی نے انہیں بلا کر شاباش دی اور انہیں ایک ماہ کی اضافی تنخواہ بھی دے دی۔ کسانوں نے پیداواری گروتھ 6.25 فیصد بڑھائی تو کہیں کوئی بیان سنا یا پڑھا؟‘
خالد کھوکھر کے بقول، ’زراعت پر حکومت کی کوئی انویسٹمنٹ نہیں جس شعبے سے 20 سے 25 ہزار ارب کی پیداوار لی جارہی ہے وہاں اخراجات کیا ہیں۔
’اگر ٹیکس لگانا ہے تو ریجن کے مطابق پیداواری لاگت میں کمی کے اقدامات کریں۔ ڈی اے پی کھاد انڈیا میں چار ہزار کی ہے ہم 12 ہزار میں خرید رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں، زرعی مشینری اور بجلی کی قیمتوں کا موازنہ بھی کر لیں کتنے سو فیصد زیادہ ہے۔ اسی لیے ہماری فصلیں عالمی منڈیوں میں انڈیا کے مقابلے میں مہنگی ہونے کے باعث فروخت نہیں ہو رہیں۔‘
کسانوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم کسان آباد کار کے سربراہ محمود نواز شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ریاست چلانے کے لیے جس طرح ہر شعبے پر ٹیکس لازم ہے اسی طرح زرعی آمدن پر ٹیکس بھی ضروری ہے۔ مگر کاشت کاروں کا شکوہ یہ ہے کہ جس طرح کی سہولیات دیگر ٹیکس ادا کرنے والے طبقے کو دی جاتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں بھی بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔‘
محمود نواز شاہ نے کہا کہ ’ٹیکس ادائیگی سے قانونی طور پر بچنے کے لیے جس طرح کاروباری طبقہ اپنے وارثوں میں آمدن تقسیم کر کے یا اخراجات وغیر ظاہر کر کے ٹیکس میں کمی کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح زرعی آمدن پر ٹیکس سے بچنے کے لیے کاشت کاروں کے پاس بھی قانونی جواز ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے وارثوں میں جائیداد تقسیم کر کے ٹیکس کی شرح میں کمی کی کوشش کرے۔ ہر انسان کی جائیداد کے جو بھی قانونی وارث ہیں ان میں تقسیم تو قانونی ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔‘
محمود نواز کے مطابق: ’حکومت کو ایسے اقدام کرنا چاہییں کہ لوگ ٹیکس ادائیگی سے پیچھا نہ چھڑائیں بلکہ خوشی سے ٹیکس ادا کریں۔ جب انہیں ترقی یافتہ ممالک کی طرح ضروری سہولیات دستیاب ہوں گی تو وہ خوشی سے ٹیکس بھی دیں گے۔‘