پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہاں پلوامہ جیسے مزید واقعات ہو سکتے ہیں اور بھارت اس کا الزام پاکستان پر لگائے گا، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور خطہ جنگ کی طرف جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کے اس حد تک جانے سے پہلے اقوام عالم کو بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ کشمیر کا غیر انسانی کرفیو ختم کرے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوایا جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے موسمیاتی تبدیلی، منی لانڈرنگ، اسلاموفوبیا اور کشمیر پر بات کی۔
اپنے خطاب کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ وہ بہت سے مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن آج صرف چار معاملات پر بات کریں گے۔
موسمیاتی تبدیلی
موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہ: ’ہم موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بات تو کرتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس میں سنجیدگی نہیں ہے کیونکہ عالمی رہنما صورت حال کی سنگینی کا اندازہ نہیں کر رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان اُن دس ملکوں میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ’ہم ایک زرعی ملک ہیں اور ہمارے دریاؤں میں 80 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ گلیشیئرز انتہائی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور کچھ نہیں کیا گیا تو ہمیں خوف ہے کہ ایک بہت بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
مزید پڑھیے: موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کے پہلے اجلاس سے پاکستان باہر
وزیراعظم نے بتایا کہ ان کی حکومت نے صوبہ خیبرپختونخوا میں پانچ ارب درخت لگائے اور اب پورے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ امیر ملکوں خصوصاً زہریلی گیسیں پیدا کرنے والے ذمہ دار ملکوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے اقوام متحدہ پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔
منی لانڈرنگ
وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں منی لانڈرنگ پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا: ’ہر سال اربوں ڈالر غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں واقع خفیہ اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں، جنہیں ٹیکس کی جنت کہا جاتا ہے۔ اس سے ترقی پذیر ملکوں میں غربت مزید بڑھ رہی ہے۔‘
انہوں نے زور دیا کہ امیر ملکوں کو کرپٹ لیڈروں کی جائیدادوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ ’قانون ان مجرموں کی پشت پناہی کر رہا ہے، امیر ملکوں میں سیاسی قوت ارادی ہونا چاہیے کہ وہ اس کی اجازت نہ دیں۔‘
وزیراعظم نے خدشے کا اظہار کیا کہ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور جلد یا بدیر ایک بحران آنے والا ہے جب غریب، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا۔
اسلاموفوبیا
وزیراعظم عمران خان نے دنیا میں بڑھتے ہوئے اسلام فوبیا پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دنیا میں 1.3 ارب مسلمان ہیں جبکہ بہت سے ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے اسلاموفونیا میں اضافہ ہوگیا ہے، اس سے ایک تقیسم پیدا ہو رہی ہے، خاص کر حجاب پہنی ہوئی خواتین لوگوں کے لیے خطرہ سمجھی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ مغربی رہنماؤں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا اور ریڈیکل (بنیاد پرست) اسلام کی اصطلاح استعمال کی، اسلام تو صرف ایک ہے۔ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی مذہب بنیاد پرستی نہیں سکھاتا۔ ہمیں اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد سے یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان خودکش حملے کرتے ہیں کیونکہ انہیں جنت میں حوریں ملیں گی۔ کسی نے تامل ٹائیگرز کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا، وہ نائن الیون سے پہلے بھی خودکش حملے کرتے تھے لیکن کسی نے ان کے مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔
کشمیر
کشمیر کے معاملے پر بات کرنے سے قبل عمران خان نے 80 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مغربی ملکوں کی جنگ کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ پاکستان نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ ’ان مجاہدین کو پاکستانی فوج نے تربیت دی۔ ہم انہیں فریڈم فائٹر کہتے تھے لیکن سوویت یونین نے انہیں دہشت گرد کہا۔ پھر امریکہ تو چلا گیا اور پاکستان میں یہ گروپس رہ گئے۔ نائن الیون کے بعد ہم نے افغانستان میں امریکی جنگ میں حصہ لیا۔ اب ہم ان (گروپوں) کو یہ بتا رہے تھے کہ یہ آزادی کی جدوجہد یا جہاد نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم نے دنیا کو یہ باور کروایا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں 70 ہزار پاکستانی ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان کو معاشی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
عمران خان نے بھارت کے اس الزام کو مسترد کردیا کہ پاکستان میں موجود شدت پسند تنظیمیں وہاں حملہ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ’بھارت ہم پر الزام لگاتا ہے کہ ہم دہشت گرد بھیجتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ کے غیر جانبدار مبصر بھیجے جائیں تاکہ اصل صورت حال سامنے آئے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مودی کہتے ہیں کہ پاکستان سے ان کے ملک میں حملے ہو رہے ہیں لیکن میں نے کہا کہ آپ کی سرزمین سے بلوچستان میں حملے کیے جا رہے ہیں جس کا ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری ہے۔‘
وزیراعظم نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال پر روشنی دالتے ہوئے کہا کہ وہاں نو لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اورپانچ اگست کے بعد سے وہاں کے 80 لاکھ افراد محصور ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جب کشمیر سے کرفیو ہٹے گا اور لوگ باہر نکلیں گے تو نو لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں خون ریزی کا خطرہ ہے۔
ہم ترقی، رابطے اور امن کی ضرورت پر زور دیتے ہیں: مودی
اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’بھارت کے 130 کروڑ لوگوں نے ان کو بھارت کی نمائندگی کے لیے چنا ہے۔ وہ دنیا کا سب سے بڑا الیکشن جیت کر آئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بھارت عالمی سطح پر گرین گیسز کی مقدار خارج کرنے میں بہت کم کردار رکھتا ہے۔ ’ہم ترقی، رابطے اور امن کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دنیا کو دہشت گردی کے خلاف مل کر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔‘
اپنی حکومت کی کارکردگی بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گذشتہ پانچ سال میں بھارت میں 11 کروڑ بیت الخلا بنائے ہیں جبکہ وژن 2022 کے سلسلے میں غریبوں کے لیے دو کروڑ گھر بھی بنائے جائیں گے۔