وادی نیلم کی مرکزی شاہراہ کو ’موت کی سڑک‘ کیوں کہا جا رہا ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم میں بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں لیکن ذرائع سفر کے لیے موجود مرکزی شاہراہ پر حادثات اتنے تواتر کے ساتھ ہونے لگے ہیں کہ لوگ اب اس پر جانے میں ڈرتے ہیں۔

 پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی علاقے وادی نیلم کی مرکزی شاہراہ پر ہونے والے مہلک ٹریفک حادثات کے سبب اسے اب ’موت کی سڑک‘ پکارا جانے لگا ہے۔

وادی نیلم کو سیاحت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے اور 2023 کے دوران محکمہ سیاحت کے مطابق 11 لاکھ سے زیادہ سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا۔

پولیس اور محکمہ سیاحت کے ریکارڈ کے مطابق صرف گذشتہ عید کے چھ دنوں کے دوران وادی نیلم میں تین لاکھ سیاح اور 70 ہزار گاڑیاں داخل ہوئیں۔

لیکن اس وادی میں ذرائع سفر کے لیے موجود مرکزی شاہراہ پر حادثات اتنے تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں کہ لوگ اب اس پر جانے میں ڈرنے لگے ہیں۔

مظفرآباد اور نیلم ویلی کو جوڑنے والی 116 کلومیٹر طویل سڑک، دشوار گزار پہاڑی راستوں میں سے بل کھاتے ہوئے گرزتی ہے، پر پانچ ہفتہ قبل کیل سے تاوبٹ جانے والی مسافر جیپ حادثہ کا شکار ہوئی جس میں سات سیاحوں سمیت 17 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

اس واقعے کے بعد ڈیڑھ مہینے میں اسی روڈ پر دیولیاں کے مقام پر پیش آئے جان لیوا حادثے میں 14، سرگن ویلی حادثi میں ایک، رتی گلی دواریاں کے مقام پر پیش آنے والے حادثے میں دو افراد جان سے گئے جب کہ چار لاپتہ ہوئے اور گذشتہ روز دھنی کے مقام پر سیاحوں کی کار کو حادثہ پیش آیا، جس میں دو سیاح جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

دیولیاں جیپ حادثہ کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے فوری تحقیقات کا حکم دیا اور ٹرانسپورٹ کے شعبہ کا الگ سیکرٹریٹ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا۔

کشمیر میں اس سے پہلے ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے زیر انتظام ٹرانسپورٹ کے جملہ شعبہ جات کو چلایا جاتا تھا۔

حادثے کے بعد کشمیر کی ٹریفک پولیس نے بھی بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کیا، جن میں اوور لوڈنگ، غیر قانونی آلٹریشن اور بغیر لائسنس، پرمٹ، فٹنس سرٹیفیکیٹ گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کے تحت مقدمات کے اندراج کی کارروائی کی جا رہی ہے۔

حادثات کی وجوہات

نیلم ویلی میں متواتر حادثات کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم وجہ پرانی اور تقریباً ناکارہ ہو جانے والی گاڑیوں کا استعمال ہے۔

کشمیر کا بیشتر حصہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں، جن میں وادی نیلم کشمیر کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ پہاڑی اور دشوار گزار علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں سفر صرف فور بائی فور گاڑیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ان علاقوں میں سفر کے لیے مقامی آبادی جیپ نما فور بائی فور گاڑیوں کا استعمال کرتی ہے۔  یہ گاڑیاں بنیادی طور پر باربرداری کے لیے استعمال کی جاتی ہیں لیکن ان کی غیر قانونی طور پر تبدیلیاں کر کے باڈی کو بڑھا دیا جاتا اور بیٹھنے کی گنجائش ایڈ جسٹ کرنے کے بعد انہیں مسافر گاڑیوں کے طور مختلف علاقوں کی دشوار گزار پہاڑی سڑکوں پر چلایا جاتا ہے۔

ایسی گاڑیوں کی چھتوں پر سامان رکھنے کی غرض سے آہنی کیبن الگ سے نصب کیے جاتے ہیں، جب کہ چھتوں پر مسافروں کو بھی بٹھایا جاتا ہے۔

ایسی گاڑیوں میں اکثر 70 سے 85 تک کے پرانے ماڈلز کی ہوتی ہیں، جن کی عام طور پر ماہانہ دیکھ بھال نہیں کروائی جاتی اور نہ ان کی فٹنس کا خیال رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے حادثات کا شکار ہونے کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اس سارے معاملے پر وزیر ٹرانسپورٹ کشمیر جاوید بٹ کا کہنا تھا کہ ’نیلم میں ہوئے حادثات کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

’ٹرانسپوعرٹ کے شعبے مٰن بہت خامیاں تھیں اور گذشتہ 70 سالوں کے دوران اساکا وزیر با اختیار نہیں تھا۔ ہم اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اب آپ کو بہتری نظر آئے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر یا سامان لے جانا اور غیر قانونی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے قانون بنائے جا رہے ہیں، جن میں اولاذکر جرم کی چھ اور  آخرالذکر کی دو مہینے کی قید کی سزا ہو گی۔

وزیر ٹرانسپورٹ ک کہنا تھا کہ ’کشمیر میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اجازت ہونا چاہیے اور اس حوالے سے بھی قانون سازی کی جا رہی ہے۔‘

وزیر ٹرانسپورٹ نے اس معاملے پر ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسران ان کے احکامات ہوا میں اڑا دیتے ہیں اور اس سارے معاملے میں ذمہ دار وہی ہیں۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق ضلع نیلم میں 2015 تا دسمبر 2022 کے دوران ٹریفک حادثات میں 155 اموات ہوئیں اور 225 افراد زخمی ہوئے، جب کہ یکم مئی 2023 تا 10 جون 2024 کے دوران 32 لوگ ٹریفک حادثات میں جان سے گئے اور 50 زخمی ہوئے۔ 

ایس ایس پی ٹریفک چوہدری محمد امین نے بتایا کہ ’ٹریفک پولیس سخت کارروائیاں کر رہی ہے تاہم کاغذات مکمل ہونے کی سورت میں گاڑی کو بند کرنے یا جرمانے کا جواز باقی نہیں رہتا لیکن اوور لوڈنگ کے خلاف سختی کی جاتی ہے۔

مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے ٹرانسپورٹر محمد عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ ’پہاڑی علاقوں میں لوگوں نے اپنے گھروں تک کچی سڑکیں نکال رکھی ہیں اور جیپ نما سستی گاڑیاں خرید کر نہ صرف ان پر اپنے گھر کے ضروری سامان کی ترسیل کرتے ہیں بلکہ اسی کام کو روزگار کان ذریعہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان