کارگل جنگ کے 25 سال: غلط پلاننگ، حیرت انگیز بہادری

اس لڑائی کو شروع کرنے میں سیاسی حکومت کی حمایت تھی یا نہیں؟ یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے۔

25 جولائی، 2024 کو کارگل ضلع میں دراس کے سامنے لاموچن پہاڑ پر انڈین فوج کا ایک جوان پہرہ دے رہا ہے۔ 26 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) بھارت اپنے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ اپنی آخری بڑی مسلح جنگ کے 25 سال مکمل ہونے پر ہمالیہ کے دامن میں ایک اونچی لڑائی میں تبدیل ہونے والا ہے۔ (توصیف مصطفی/ اے ایف پی)

کارگل کی جنگ کے 25 سال مکمل ہونے پر ’کارگل سے بغاوت تک‘ کی مصنفہ نسیم زہرہ کا خصوصی انٹرویو جنہوں نے اس جنگ کے پس منظر اور نتائج کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ نسیم زہرہ نے اس موضوع پر ایک تحقیقی کتاب ’فرام کارگل ٹو کو‘ بھی تحریر کی ہے۔ 


پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے انڈیا میں 2018 میں شائع ہونے والی کتاب ’سپائے کرانکلز‘ میں بتایا کہ کارگل ’جنرل پرویز مشرف کا طویل عرصے سے ایک جنون تھا۔‘

کارگل انڈیا کے زیر اتنظام علاقے لداخ کا ایک ضلع ہے۔ 1999 میں مئی سے جولائی تک ہمالیائی پہاڑیوں میں لڑی جانے والی کارگل جنگ کے دوران دونوں ممالک کے سینکڑوں فوجی مارے گئے جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس جنگ کے دوران لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف عام شہریوں کا بھی کافی جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس نے پاکستان کو واپس اپنی جگہ پر دھکیل کر یہ جنگ جیت لی تھی۔ اب وہ ہر سال 26 جولائی کو اس ’جیت‘ کی خوشی اور یاد میں ’کارگل وجے دیوس‘ مناتا ہے۔

پاکستان کو انڈیا کے ساتھ 1965 کی جنگ میں کارگل سیکٹر میں ایک اہم سپلائی لائن پر نظر رکھنے کی برتری حاصل ہوئی تھی۔ یہ عسکری برتری 1971 کی جنگ میں پاکستان نے کھو دی تھی۔

اس لڑائی کو شروع کرنے میں سیاسی حکومت کی حمایت تھی یا نہیں؟ یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے۔

سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی 2003 میں شائع ہونے والی کتاب ’دی کارگل کنفلکٹ 1999: فرام فکشن ٹو فیکٹ‘ میں نسیم زہرہ سے مختلف واقعات بیان کیے تھے۔

ڈاکٹر مزاری اور جنرل مشرف کے کارگل پر تقریباً یکساں خیالات ہیں کہ وزیراعظم کو کارروائی سے قبل آگاہ کیا گیا تھا، لیکن وہ بین الاقوامی دباؤ کے باعث ناکام ہو گئے، ورنہ کارگل بڑی فوجی فتح ہو سکتی تھی۔

کارگل کوئی اکیلا یا انوکھا واقعہ نہیں تھا بلکہ پاکستان اور انڈیا کی تاریخ میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ ایک ملک نے چپکے سے جا کر لائن آف کنٹرول کے کسی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ 1984 میں سیاچن پر انڈین قبضہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس میں انڈیا نے کامیابی سے خاصے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک طریقۂ کار بن گیا کہ آپ چوکس ہو کر بیٹھے ہیں کہ اگلے کے کمزور پوائٹس کون سے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ بےنظیر بھٹو کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا۔

نسیم زہرہ نے کہا کہ اس منصوبے میں چار لوگ شامل تھے، جنرل مشرف، ملٹری انٹیلی جنس کے جنرل عزیز، ٹین کور کے جنرل محمود اور جنرل جاوید حسن، جو امریکہ سے پڑھ کر آئے تھے اور سب سے زیادہ پرجوش تھے۔ ’وہ امریکہ سے پڑھ کر آئے تھے اور کہتے تھے کہ امریکی کہتے ہیں کہ تم لوگوں میں ہمت ہی نہیں ہے، کچھ کرتے ہی نہیں ہو۔‘

نسیم زہرہ نے بتایا کہ کارگل کا بنیادی منصوبہ تھا کہ کارگل کی بلند چوٹیوں پر سردیوں میں قبضہ کر لیا جائے گا، چونکہ ہم ایٹمی طاقت ہیں اس لیے انڈیا کوئی سخت ردِ عمل نہیں دکھائے گا، ’ہم وہیں رہ جائیں گے، جب دباؤ پڑے گا، دنیا کہے گی کہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں ، پھر دنیا آئے گی اور مداخلت کرے گی، اور کشمیر پر کوئی تصفیہ ہو جائے گا۔‘

نسیم زہرہ نے کہا کہ پاکستانی فوجیوں نے بہت زیادہ بہادری کا مظاہرہ کیا، مگر پلاننگ بالکل تباہ کن تھی۔ ’جو داستان بہادری کی ہے، دشمن بھی اس کو مانتا ہے۔ کرنل شیر اور دوسرے بہت سے نام ہیں ، جس جذبے اور ہمت کے ساتھ وہ لڑے، ان پر آفرین ہے۔

’پاکستانی فوجی ٹریک سوٹ پہن کر لڑے۔ کھانے کے لیے بھی کافی نہیں تھا، مثلاً اگر دس دن کے لیے گئے تو پچاس دن تک ان کو بیٹھنا پڑا۔ جو ہمت، جو جذبہ، جو کمٹنمٹ، جو بہادری ان لوگوں نے دکھائی، اس کے ساتھ اگر منصوبہ بندی ہونی چاہیے تھی۔‘

پاکستان کی پسپائی بعد میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان مزید تلخیوں کا سبب بنی، جو 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت پر منتج ہوئیں اور اس کے بعد جنرل مشرف کے طویل دور اقتدار کا آغاز ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ