افغانستان میں طالبان کو دوبارہ اقتدار حاصل کیے ہوئے تقریباً تین سال گزر چکے ہیں لیکن اس تحریک کے کئی اہم رہنما آج بھی میڈیا یا عوامی نظروں سے اوجھل ہیں اور ان کی نہ تو کوئی تصویر یا ویڈیو سامنے آئی ہے۔
ان اہم رہنماؤں میں طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخندزادہ، انٹیلی جنس کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور رہبری شوریٰ کے رکن تاج میر جواد اور نائب وزیر دفاع قیوم ذاکر کو اب بھی بظاہر حفاظتی خدشات کے تحت چھپایا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ان کے انتہائی قابل اعتماد لوگوں کے ایک محدود حلقے کے سامنے ہی آتے ہیں۔
تاج میر جواد اور قیوم ذاکر کا طالبان سے وابستہ پریس حکام اور میڈیا نے کم ہی تذکرہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کی سکیورٹی، دفاعی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی یہ تینوں اہم شخصیات میڈیا میں یا عوام کے سامنے آنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔
طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخندزادہ کی اب تک محض ایک تصویر شائع ہوئی ہے، جسے کچھ افغان شہری طنز سے ’پاسپورٹ تصویر‘ کہتے ہیں۔
طالبان حکومت کئی بار دعویٰ کر چکی ہے کہ ملا ہبت اللہ نے گذشتہ دنوں شہریوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں تقریر کی، لیکن انہوں نے اس اجتماع کی کوئی ایسی تصویر یا ویڈیو شائع نہیں کی جس سے ملا ہبت اللہ کی موجودگی ثابت ہو۔
طالبان کے نائب وزیر داخلہ ملا ابراہیم صدر کی بھی کافی عرصے تک کوئی تصویر یا ویڈیو شائع نہیں کی گئی تھی لیکن اکتوبر 2021 کے بعد سے طالبان اور ان کے حامیوں نے ایکس پلیٹ فارم پر ابراہیم کی متعدد تصاویر اور ویڈیوز شائع کیں۔
افغانستان کی قومی سلامتی کے ادارے کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے کہا تھا کہ ملا ابراہیم صدر دراصل خدایا داد کا عسکری نام ہے اور ان کا تعلق الکوزی قبیلے سے ہے جو ہلمند صوبے کے سنگین شہر کے علاقے سروان قلعہ میں پیدا ہوئے تھے۔
قیوم ذاکر اور ابراہیم صدر جنوب اور مغربی افغانستان کے کچھ حصوں میں مشہور طالبان کمانڈر تھے اور انہیں پاکستان مخالف شخصیات اور ایران کے قریبی سمجھا جاتا ہے۔
ایران سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں امریکی افواج کے فضائی حملے میں ملا اختر محمد منصور کی موت کے بعد، قیوم ذاکر اور صدر ابراہیم نے جنوبی افغانستان میں ہلمند کونسل تشکیل دی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ ہلمند کونسل نے ایرانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر رکھے تھے اور یہاں تک کہ ہلمند کونسل کے کچھ زخمیوں کو علاج کے لیے ایران بھی لے جایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قیوم ذاکر کا نام جولائی کے آخر میں ایک بار پھر اس وقت منظر عام پر آیا جب ہبت اللہ اخندزادہ نے وزرا اور اعلیٰ سکیورٹی حکام کو قندھار بلایا اور طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا کہ اس ملاقات میں ملا محمد یعقوب، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ نے شرکت کی۔
وزیر دفاع سراج الدین حقانی، انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ عبدالحق وثیق اور کئی دیگر اعلیٰ حکام کے علاوہ ملا قیوم ذاکر بھی موجود تھے۔ اس کے بعد ملا محمد یعقوب کا سرکاری اعلان شائع ہوا، جس میں انہوں نے تحریک کی تمام سرحدی فورسز کی ذمہ داری ملا قیوم ذاکر کو سونپ دی تھی۔
تاج میر جاوید انٹیلی جنس کے نائب ہیں، جن کا ذکر طالبان کے رہنما کے قریبی شخص کے طور پر کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاج میر اپنی بینائی کھو چکے ہیں، لیکن ان کا ذکر اب بھی طالبان کے خودکش حملوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر کیا جاتا ہے، جن کا طالبان کی خودکش فورسز پر کافی کنٹرول اور اثر و رسوخ ہے۔
تاج میر جواد کی کوئی تصویر شائع نہیں کی گئی ہے جس سے ان کی شناخت ہو سکے۔ وہ طالبان کے اعلیٰ عہدے داروں اور انٹیلی جنس فورسز اور خودکش بمباروں سے ملاقات نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ وہ عوامی اجتماعات اور تقاریب میں شرکت نہیں کرتے۔
طالبان کی انٹیلی جنس تنظیم نے تاج میر سے منسوب چند آڈیو فائلیں شائع کی ہیں۔
طالبان قیادت کے زیادہ تر اعلیٰ عہدیداروں نے ملک میں امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی کے دوران اپنی تصاویر یا ویڈیوز شائع نہیں کیں۔ پچھلی افغان حکومت کے خاتمے اور ملک سے امریکی اور نیٹو کے فوجی مشن کے خاتمے کے ساتھ ہی طالبان کے بہت سے عہدیدار عوام کے سامنے آئے۔
ان میں سابق طالبان امیر ملا محمد عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب، وزیر دفاع اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی اور وزیر داخلہ شامل تھے۔
ملا ہبت اللہ اخندزادہ، تاج میر جواد اور قیوم ذاکر اختر منصور اور ایمن الظواہری کی فضائی حملوں میں اموات کے بعد زیادہ احتیاط کرتے ہیں۔
یہ خبر اسے سے قبل انڈپینڈنٹ فارسی میں شائع ہو چکی ہے۔