افغانستان: حملوں اور دھاندلی کے الزامات میں پولنگ مکمل

‘کابل میں دی انڈپینڈنٹ کے نامہ نگار کم سن گوپتا کو صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ نے بتایا کہ ’اگر بڑے پیمانے پر فراڈ ہوا اور اس دوران کسی کو کامیاب قرار دیا گیا تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔‘

افغان الیکشن کمیشن کی ایک اہلکار پولنگ مکمل ہونے کے بعد گنتی کا عمل شروع کر رہی ہیں (اے ایف پی)

تشدد، طالبان کی قتل عام کی دھمکیوں اور دھاندلی کے الزامات کے درمیان افغانستان میں صدارتی انتخاب ہفتے کو اختتام پزیر ہوا۔

تاہم اس سب کے باوجود ووٹروں کو بہتر مستقبل کی امید بھی حاوی رہی۔

ملک بھر میں تقریبا 20 حملے اس دوران ہوئے – جن میں پولنگ سٹیشنز بھی شامل تھے۔ دھماکے کابل، قندہار اور جلال آباد میں ہوئے۔

تاہم کسی بڑے جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ سکیورٹی فورسز نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 28 باغیوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔

صدارتی انتخابات کے منعقد ہونے سے متعلق بھی غیریقینی صورت حال رہی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد قطر میں جاری طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کر دیئے تھے۔ تاہم ان مذاکرات کے جاری رہنے کا امکان ہے۔ صدر ٹرمپ ہر صورت اپنی دوبارہ انتخاب کے مہم کے لیے اپنے فوجی واپس لانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے کابل میں امانی ہائی سکول میں اپنا ووٹ ڈالا اور سکیورٹی فورسز کی حملوں سے بچنے کی خاطر سخت اقدامات اور قوم کو محفوظ رکھنے پر سراہا۔

اپنی شریک حیات بی بی گل اور ساتھی امراللہ صالح کے ساتھ وہاں انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تنازع کا حل ان کی اولین ترجعی ہے۔ ’ہمارے منصوبے تیار ہیں۔ ہم قوم سے نئے مینڈیٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

تاہم 70 ہزار فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی انتخابات کے دن تعیناتی خطرات کا پتہ دیتی ہے۔ امریکی فوج فضائی امداد کے لیے موجود رہی۔

تقریبا 29 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشن سکولوں، مساجد، ہسپتالوں اور سرکاری عمارتوں میں قائم کئے گئے تھے۔ ان میں سے 1500 مناسب سکیورٹی مہیا نہ کئے جانے کی وجہ سے بند رہے۔ مزید 901 سے رابطہ نہیں ہوسکا کہ آیا وہ فعال ہیں یا نہیں۔

طالبان کی جانب سے بار بار دھمکیوں کی وجہ سے بعض علاقوں میں ٹرن آؤٹ متاثر ہوا۔ کابل میں ووٹروں کی تعداد کم رہی جہاں کئی خودکش حملوں سے شہر متاثر ہے۔ تاہم قندہار میں صبح سات بجہ پولنگ کے آغاز سے قبل ہی خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے قطروں میں موجود تھیں۔

کئی ووٹر اور سرکاری اہلکار خاندان کی خواہشات کے برعکس باہر نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی ذمہ داری بحثیت شہری تھی کہ وہ ووٹ ڈالیں۔

بعض کے ووٹ ڈالنے کی ذاتی وجوہات تھیں۔

اشرف غنی کے پولنگ ایجنٹ شیرن شاہ پائکئی نے زرغون ہائی سکول میں کہا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ میرے رشتہ دار خوش نہیں ہوں گے میرے یہاں آنے پر، انہوں نے مجھے نہ آنے کے لیے کہا تھا۔‘

’میرا شوہر ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوا تھا اور میرے بچے یتیم ہوگئے۔ مجھے معلوم ہے کہ تشدد سے متاثر ہونا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ ہمارا ملک ایسے نہیں چل چکتا ہے، مزید ہلاکتیں، مزید بیوائیں۔ لوگوں کو ووٹ کرنا چاہیے تاکہ ایک مستحکم حکومت قائم ہوسکے۔‘

امن اور استحکام ہی ان کی واحد تشویش نہیں ہے۔ پائکئی چار بچوں کو شوہر کے چار سال قبل ہلاک ہونے کے بعد سے پال رہی ہیں۔ ’میری اقوام متحدہ میں ملازمت تھی لیکن پھر کنٹریکٹ ختم ہوگیا اور اب میں بغیر روزگار کے ہوں۔ یہ ایک جہدوجہد ہے، ہماری معیشت کو بہتر ہونا چاہیے۔‘

محترمہ پائکئی نے کہا کہ اپنے شوہر کے قتل کے باوجود وہ سیاست میں شامل ہونے اور آئندہ حکومت کا حصہ بننے پر اگر اس سے امن حاصل ہو تو طالبان کا خیرمقدم کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ قتل کرتے رہنا اس کا جواب نہیں ہے۔ ’ہم چاہیں گے کہ وہ معاشرے میں واپس آ جائیں۔‘

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، جن کا مننا ہے کہ وہ 2014 کے انتخابات میں فراڈ سے متاثر ہوئے، نے کہا: ’ہم نے کافی شکایات درج کی ہیں، مگر یہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر فراڈ ہوا اور اس دوران کسی کو کامیاب قرار دیا گیا تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔‘

انہوں نے مزیف کہا: ’مجھے مرکزی طور پر اسی بات کی فکر ہوگی کہ فریب سے بھرے انتخابات کا اثر لوگوں پر پڑے گا اور وہ سوچیں گے کہ آیا ملک میں جمہوریت چل ہی رہی یہ نہیں۔ اگر ‘ 

انتخابات کا انتظام کرنے والے آزاد الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ بائیو میٹرک تصدیق کے استعمال سے بیلٹ دھاندلیوں کو روکا جاسکے گا۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر شناختی کارڈ سے فنگر پرنٹ اور فوٹوگرافرسے میچ کرنے کے لیے سامان مہیا کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے صدر حوا عالم نورستانی نے زور دے کر کہا کہ صرف بائیو میٹرک تصدیق کے ساتھ ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ لیکن یہ شکایات موصول ہوئی ہیں کہ مشینیں ٹوٹ گئیں اور اہلکار ان کا صحیح استعمال نہیں کرسکے ہیں۔

زرغنہ ہائی سکول میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے قائم مقام وزیر داخلہ مسعود اندرابی نے نشاندہی کی کہ وہ اب تک بڑے تشدد کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا