صنفی توازن کے تمام انعامات مردوں کو دینے پر متحدہ عرب امارات کے حکام کا خوب مذاق اڑایا گیا ہے۔
یہ مضحکہ خیزی تب شروع ہوئی جب متحدہ عرب امارات کے نائب صدر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تصاویر جاری ہوئیں جن میں وہ "جینڈر بیلنس انڈیکس 2018" کے فاتحین کو انعامات تقسیم کرتے دکھائی دیے۔
شیخ محمد بن راشد المکتوم نے، جو دوبئی کے حکمران بھی ہیں، صنفی توازن قائم کرنے کے سلسلے میں بہترین شخصیت، بہترین وفاقی ادارے اور بہترین منصوبے کے انعامات جیتنے والوں کو مبارک باد دی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کا "ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں مرکزی" کردار ہے۔
ناقدین نے تقریب کی حماقت کی طرف توجہ دلائی جس میں تمام انعامات صرف مردوں کا دیے گئے حالانکہ اس کا مقصد وفاقی حکومت کی ان کوششوں کا جشن منانا تھا جو صنفی فرق کو کم کریں اور مرد و خواتین کے لیے برابر مواقع کو فروغ دیں۔
انعامات کی تقریب کے بارے میں ٹویٹ آتے ہی صارفین کی جانب سے فقرے بازی کا تانتا بندھ گیا۔
ایک صارف نے کہا: "واہ! تنوع کو صحیح دھرا ہے۔ ان میں سے ایک صاحب نے سرمئی (لباس) پہنا ہوا ہے۔”
دوسرے نے کہا: "یہ مذاق ہی ہو سکتا ہے۔”
. @HHShkMohd: We are proud of the success of Emirati women and their role is central to shaping the future of the country. Gender balance has become a pillar in our governmental institutions. #UAE pic.twitter.com/zKPkn9nTMd
— Dubai Media Office (@DXBMediaOffice) January 27, 2019
ایک اور نے کہا: "آپ نے مردوں کا زبردست توازن قائم کیا ہے۔ ایک وہ جن کے چہروں پر گھنے بال ہیں اور دوسرے وہ جن کے چہروں پر ہلکے بال ہیں۔”
بعد میں دوبئی کے میڈیا آفس سے کیے گئے ایک اور ٹویٹ میں ایک تصویر شامل تھی جس میں پانچ خواتین اور انعام جیتنے والا ایک شخص، شیخ محمد کے ساتھ کھڑے تھے البتہ ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
دوبئی میڈیا آفس نے متحدہ عرب امارات میں صنفی توازن کی کونسل کی صدر شیخہ منال بنتِ محمد بن رشید المکتوم سے منسوب ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے تمام سرکاری محکموں میں صنفی فرق ختم کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے جو 2015 میں مقرر کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال اپریل میں متحدہ عرب امارات کی کابینہ نے ایک قانون کی منظوری دی تھی جس کے تحت خواتین کو برابر تنخواہوں کو یقینی بنایا جانا تھا۔
البتہ ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری ہونے سالانہ پیمانے، جینڈر گیپ رپورٹ 2018 میں صنفی فرق ختم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں 149 ملکوں کی فہرست میں متحدہ عرب امارات 121ویں نمبر پر آیا۔ جبکہ خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت اور مواقع کے پیمانے پر یہ ملک 134ویں نمبر پر رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون سازوں، اعلیٰ افسروں اور منیجروں میں صنفی تفریق کم ہوئی ہے جس سے مجموعی طور پر تنخواہوں کے فرق میں بھی کمی آئی ہے۔
البتہ حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ صنفی امتیاز کا مسئلہ پورے متحدہ عرب امارات میں رچا ہوا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق متحدہ عرب امارات کا قانون،شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے گھریلو تشدد کی اجازت دیتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ جنس اور صنف کی بنیاد پر تفریق کو متحدہ عرب امارات کے 2015 کے قانون میں امتیازی سلوک کی تعریف میں ڈالا ہی نہیں گیا۔