آسٹریلیا: جبری شادی کے بعد بیٹی قتل، افغان والدہ کو سزا

سکینہ محمد جان کو معمولی رقم کے عوض 2019 میں اپنی 21 سالہ بیٹی رقیہ حیدری کی 26 سالہ محمد علی حلیمی کے ساتھ شادی کروانے کا مرتکب پایا گیا۔ شادی کے چھ ہفتے بعد علی حلیمی نے رقیہ حیدری کو قتل کر دیا۔ انہیں بالآخر اس جرم پر عمر قید کی سزا ہو گئی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ سکینہ محمد جان شادی پر بیٹی کے اعتراض سے پہلے ہی طے شدہ رقم لے چکی تھیں (آسٹریلین فیڈرل پولیس)

50 سالہ افغان خاتون آسٹریلیا میں جبری شادی کے خلاف رائج قانون کے تحت سزا پانے والی پہلی شخصیت بن گئیں۔

انہوں نے اپنی بیٹی کو شادی کرنے پر مجبور کیا جس کے بعد 21 سالہ لڑکی کو قتل کر دیا گیا۔

سکینہ محمد جان کو معمولی رقم کے عوض 2019 میں اپنی 21 سالہ بیٹی رقیہ حیدری کی 26 سالہ محمد علی حلیمی کے ساتھ شادی کروانے کا مرتکب پایا گیا۔

شادی کے چھ ہفتے بعد علی حلیمی نے رقیہ حیدری کو قتل کر دیا۔ انہیں بالآخر اس جرم پر عمر قید کی سزا ہو گئی۔

پیر کو سکینہ محمد جان کو قانون کے تحت تین سال قید کی سزا سنائی گئی اور جبری شادی کے خلاف قانون کے تحت جیل بھیجی جانے والی پہلی شخصیت بن گئیں۔

آسٹریلیا میں جبری شادی کے قانون کو 2013 میں متعارف کروایا گیا تھا جس کے تحت زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا ہے۔

جج نے فیصلہ سنانے سے قبل خاتون کی جانب سے بیٹی پر ’ناقابل برداشت دباؤ‘ ڈالنے کا حوالہ دیا۔

سکینہ محمد جان نے اعتراف جرم نہ کرتے ہوئے بیٹی کی موت پر افسوس کا اظہار کیا اور مقدمے کی سماعت کے دوران اپنی بے گناہی پر قائم رہیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے جان نے اپنی بیٹی کو شادی کرنے پر مجبور کیا۔

افغان ہزارہ پناہ گزین سکینہ محمد جان 2013 میں طالبان کے جبر سے فرار ہو کر پانچ بچوں کے ساتھ وکٹوریہ منتقل ہو گئی تھیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی حیدری کو پہلی بار 15 سال کی عمر میں غیر رسمی مذہبی شادی کے لیے مجبور کیا گیا جو ان کی 20 سال کی عمر میں طلاق پر ختم ہوئی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ رقیہ حیدری نے 27، 28 سال کی عمر سے قبل شادی نہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ تعلیم اور کریئر پر توجہ دینا چاہتی تھیں۔ لیکن برادری کی نظروں میں وہ طلاق کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو چکی تھیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ والدہ نے خاندان کی ساکھ بحال کرنے کے لیے بیٹی کو دوسری شادی کرنے پر مجبور کیا۔ جوڑے کی شادی نومبر 2019 میں سرکاری رجسٹریشن کے بغیر مذہبی تقریب میں ہوئی۔ شادی پر سکینہ محمد جان کو دلہن کے جہیز کے لیے 14 ہزار ڈالر کی رقم ملی۔

اگرچہ ممکن ہے کہ والدہ کا ماننا ہو کہ وہ بیٹی کے بہترین مفاد میں کام کر رہی ہیں، جج نے کہا کہ انہوں نے بار بار رقیہ حیدری کی خواہشات کو نظر انداز کیا اور ایک ماں کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

جج فران ڈلزیئل نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ ’لڑکی تعلیم حاصل کرنا اور ملازمت کرنا چاہتی تھیں۔‘

محمد علی حلیمی کے کئی قریبی لوگوں نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ خاندن کی طرف سے طے کی گئی شادی نہیں کرنا چاہتیں بلکہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور محبت کی شادی کرنا چاہتی تھیں۔

2021 میں رقیہ حیدری کے قتل کے جرم میں ان کے شوہر کو سزا سنانے کے دوران مغربی آسٹریلیا کی ایک عدالت کو بتایا گیا کہ محمد علی حلیمی بیوی پر تشدد کرتے اور انہیں بدسلوکی کا نشانہ بناتے۔ انہیں گھر کے کاموں پر مجبور کیا جاتا تھا۔

بیوی کے قتل سے ایک دن قبل محمد علی حلیمی نے ان کے خاندان کو ایک ویڈیو بھیجی جس میں شکایت کی گئی کہ رقیہ حیدری دیر سے سوتی ہیں اور کھانا بنانے یا گھر کی صفائی کے لیے تیار نہیں۔ حیدری نے ان کی قربت کی کوششوں کو بھی مسترد کردیا۔

جج نے کہا کہ ’حیدری کو معلوم تھا کہ شادی نہ کرنے پر آپ اور باقی خاندان کے بارے میں سوالات اٹھیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’وہ نہ صرف آپ کے غصے کے بارے میں فکرمند تھیں بلکہ معاشرے میں آپ کی عزت کے بارے میں بھی فکرمند تھیں۔‘

جج ڈلزیئل نے کہا کہ جان نے ماں ہونے کا ’غلط‘ استعمال کیا۔ وہ بیٹی سے ’پیار اور احترام‘ کرتی تھیں۔

ججج نے کہا: ’اگرچہ آپ کا ماننا تھا کہ آپ ان (بیٹی) کے بہترین مفاد میں کام کر رہی ہیں لیکن حقیقت میں آپ ایسا نہیں کر رہی تھیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں افغانستان واپس بھیجے جانے کا بھی سامنا ہو سکتا ہے جو ایک ہزارہ خاتون کے لیے ’بہت سنگین بات‘ ہو گی۔

سکینہ محمد جان کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے لیکن 12 ماہ کے بعد انہیں رہا کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ کمیونٹی میں جا کر اپنی بقیہ سزا پوری کر سکیں۔ سزا سنائے جانے کے بعد انہوں نے جج کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

اٹارنی جنرل مارک ڈریفس نے پیر کو بیان میں جبری شادی کو آسٹریلیا میں ’سب سے زیادہ رپورٹ کیا جانے والا غلامی جیسا جرم‘ قرار دیا۔

 خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صرف 2022-23 میں وفاقی پولیس کو 90 کیسز رپورٹ کیے گئے۔

’آسٹریلیا میں ہر کسی کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ اسے کس سے اور کب شادی کرنی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا