افغان خواتین اور ان کے نظرانداز شدہ حقوق

ستم ظریفی ہے کہ مغرب کی جانب سے افغانستان پر عائد پابندیوں سے سب سے زیادہ خواتین ہی متاثر ہوئی ہیں کیوں کہ وہاں صنفی تفریق میں اضافہ ہوا ہے۔

افغان خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے خلاف نہ صرف بیرونی دنیا بلکہ داخلی سطح پر بھی منفی ردعمل سامنے آیا ہے (اے ایف پی)

افغانستان کے برف پوش پہاڑ اور ان کے گرد واقع جنت نظیر وادیاں یہاں کی خواتین کے لیے جہنم بن چکی ہیں۔

مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں پیدا ہونے والی خواتین کے لیے خوشحالی جیسے الفاظ بےمعنی ہیں۔ بلاشبہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی خواتین کو معاشرے یا معیشت میں ان کی صلاحیتوں کے تناسب سے حصہ نہیں ملتا لیکن آج افغانستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں پہلے سے واضح اور تکلیف دہ ہیں۔

زیادہ تر پدرانہ معاشروں میں ’خواتین کے حقوق‘ کی اصطلاح نہ صرف ڈرا دینے والی ہے بلکہ مردوں اور عورتوں کے درمیان گرما گرم بحث کا موضوع بھی ہے جو اسے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔

یہ اصطلاح اکثر سفید فام یا مغربی حقوق نسواں کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ یہ اصل میں مختلف ثقافتوں میں خواتین کو درپیش جبر کی الگ الگ شکلوں کو بیان کرتی ہے۔

یہاں مذہبی کتابیں پڑھی جاتی ہیں اور آیات کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے لیکن خواتین خاص طور پر افغانستان جیسے ملک میں درجہ بندی والے نظام میں سب سے نچلے درجے پر ہیں۔ اس ملک کی بہت سی دیہی خواتین کو اپنے اس حق کے بارے میں معلومات ہی نہیں جن کے نزدیک مردوں سے آزادی کا مطالبہ محض اعلیٰ طبقے کی خواتین کا نعرہ ہے۔

ایک مثالی دنیا میں کسی بھی خاتون کو بولنے، کہیں جانے، ملنے جلنے، رفاقت اور عزت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے لیکن غازی آباد کے ایک دور افتادہ ضلعے میں ایک خاتون حقیقی معنوں میں آزادی کی بجائے گرم کھانے اور صحت کی سہولیات کی کمی کے باعث زچگی کی موت سے پریشان ہے۔

بین الاقوامی برادری کی جانب سے صحت عامہ کے لیے امداد میں کٹوتیوں کے ساتھ طالبان کی پابندیوں سے یہاں کی خواتین میں زچگی کے دوران اموات اور غذائی قلت میں تیزی اضافہ ہوا ہے جس سے ان کی مشکلات غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہیں۔

پرائمری تعلیم کے بعد لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں ہے اور طالبان کے ’مذہبی اور ثقافتی تحفظات‘ کی وجہ سے خواتین کے لیے کام کے مواقع کافی حد تک ختم ہو چکے ہیں۔ کوئی خاتون جو اب بھی کام کرتی ہے، اس کے ساتھ ایک مرد محافظ کا ہونا ضروری ہے اگر اس کا سفر 45 میل سے زیادہ ہو۔

امریکی جنگ، منجمد اثاثوں اور طالبان کے جابرانہ طرز حکمرانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران نے خواتین، لڑکیوں اور زیادہ بچیوں والے گھرانوں کو متاثر کیا ہے۔ غربت کا سامنا کرتے ہوئے والدین جہیز کے بدلے یا اپنے خاندان کے تحفظ کی خاطر طالبان جنگجوؤں سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2001 میں اس وقت کی امریکی خاتون اول لارا بش نے امریکی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے اعادہ کیا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ، خواتین کے حقوق اور وقار کی لڑائی بھی تھی۔‘

تب سے تمام فریقین نے افغانستان میں خواتین کو قربانی کے بکرے کی طرح استعمال کرنا شروع کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خواتین سمیت تقریباً 47 ہزار شہری امریکی جنگ کا ایندھن بن گئے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام اور اقوام متحدہ کی طرف سے امداد میں کٹوتیوں کی صورت میں اس تادیبی اقدامات نے افغانستان میں 20 لاکھ سے زائد ان گھرانوں کو براہ راست نقصان پہنچایا ہے جن کی کفالت خواتین کر رہی تھیں۔

ان تاریک حالات میں متعدد بین الاقوامی جریدوں میں ایسی رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ بہت سی افغان مائیں اپنے بچوں کو بھوکا سلانے پر مجبور ہیں۔

بیواؤں اور اکیلی خواتین کے لیے مردوں کے ذریعے تقسیم ہونے والی امداد تک رسائی مایوس کن حد تک مشکل بن چکی ہے کیوں کہ خواتین کو مرد محافظ کے بغیر زیادہ سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ خواتین کے حقوق پر پابندیوں کے ردعمل کے طور پر امداد میں کٹوتیوں کا براہ راست اثر بھی خواتین اور بچوں پر ہی پڑتا ہے۔

2001 کے بعد سے بین الاقوامی برادری نے افغانستان میں خواتین کو بہتر معاشی ذرائع مہیا کرنے کے لیے کام کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بطور فیملی یونٹ ناکافی تھی۔ ملک میں کام کرنے والی خواتین کو اپنے خاندانوں سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ نتیجتاً ثقافتی اور روایتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا جس سے پہلے سے ہی تنازعات کے شکار گھرانوں میں مزید دراڑیں پیدا ہوئیں۔

منظرنامے کے دوسرے سرے پر طالبان نے دوحہ معاہدے کے دوران کیے گئے وعدوں سے منہ موڑ لیا ہے اور اب خواتین سرکاری دفاتر اور عدلیہ جیسے شعبوں میں نظر نہیں آتیں۔۔ ان پر سیلونز اور پبلک پارکس میں جانے پر پابندی ہے۔ انہیں ایک خاص سطح سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

اگر طالبان کے قرون وسطیٰ کے ان اقدامات کا جواز خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو پھر ان کی کسی کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی اہلیت پر زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔

سب سے زیادہ ذمہ داری طالبان پرعائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین کو ایک ایسے معاشرے میں دوبارہ شامل کریں جس کو ایک بڑی ورک فورس، زیادہ آمدنی اور زیادہ تعلیم یافتہ یا ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔

ایک روایتی یا مذہبی معاشرے میں خواتین پر عائد پابندیوں میں نرمی اور تعلیم کے بنیادی حق سے ان کے نظریات کو خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔

(بشکریہ عرب نیوز)

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر