برطانیہ: مشہور مبلغ کو دہشت گردی کے الزامات پر عمر قید کی سزا

لندن میں  کم از کم 28 برس قید کی سزا سناتے ہوئے وولیچ کراؤن کورٹ کے جج مارک وال نے 57 سالہ سابق وکیل انجم چوہدری سے کہا کہ انہوں نے ’دہشت گرد تنظیم کو چلانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔‘

19 اکتوبر 2018 کی اس تصویر میں مبلغ انجم چوہدری داعش کی حمایت کے الزام میں اپنی سزا کے خاتمے کے بعد لندن کی ایک  جیل سے باہر نکلتے ہوئے (اے ایف پی)

برطانوی عدالت نے کالعدم تنظیم کی سربراہی کا مرتکب پائے جانے پر منگل کو برطانیہ کے سب سے زیادہ معروف اسلامی مبلغین میں سے ایک انجم چوہدری کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

لندن میں  کم از کم 28 برس قید کی سزا سناتے ہوئے وولیچ کراؤن کورٹ کے جج مارک وال نے 57 سالہ سابق وکیل انجم چوہدری سے کہا کہ انہوں نے ’دہشت گرد تنظیم کو چلانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔‘

 لندن کی میٹروپولیٹین پولیس، نیویارک کے محکمہ پولیس (این وائی پی ڈی) اور رائل کینیڈین ماؤنٹس پولیس کی مشترکہ تحقیقات کے بعد انجم چوہدری کو سزا سنائی گئی۔

جج مارک وال کا کہنا تھا کہ انجم چوہدری مجموعی طور پر 26 سال سے زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے کیونکہ وہ پہلے ہی حراست میں وقت گزار چکے ہیں۔ سزا کا کا مطلب یہ ہے کہ انہیں 85 سال کی عمر سے پہلے رہا نہیں کیا جائے گا۔

جج نے طویل سزا کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ انجم چوہدری نے ’نوجوانوں کو بنیاد پرستی پر مبنی سرگرمیوں‘ پر اکسایا۔

جنوب مشرقی لندن میں وولیچ کراؤن کورٹ کی ایک جیوری نے گذشتہ ہفتے انہیں المہاجرون (اے ایل ایم) کا ’نگران‘ رہنما قرار دیا تھا، جسے 2010 میں برطانیہ میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

اس گروپ کی بنیاد 1996 میں شمالی لندن میں مقیم شامی نژاد مذہبی رہنما عمر بکری محمد نے برطانیہ میں اسلامی خلافت قائم کرنے کے مقصد سے رکھی تھی۔

اس گروپ کے ارکان کئی حملوں میں ملوث رہے ہیں، جن میں 2013 میں برطانوی فوجی لی رگبی کا قتل اور 2017 اور 2019 میں لندن برج پر حملے شامل ہیں۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ المہاجرون اب بھی مختلف ناموں سے موجود ہے، جن میں نیویارک میں قائم اسلامک تھنکرز سوسائٹی بھی شامل ہے۔

امریکی قانون نافذ کرنے والے افسران اس گروپ میں شامل ہوئے اور 2022 اور 2023 میں انجم چوہدری کے ساتھ آن لائن لیکچرز میں شرکت کی، جس سے برطانیہ اور کینیڈا میں پولیس کی تحقیقات شروع ہوگئیں۔

لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے ڈومینک مرفی نے سزا سنائے جانے کے بعد کہا: ’ایسے افراد ہیں جنہوں نے دہشت گردانہ حملے کیے ہیں یا دہشت گردی کے مقاصد کے لیے سفر کیا ہے۔‘

نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ کی ڈپٹی کمشنر ربیکا وینر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انجم چوہدری کو سنائی گئی سزا ’تاریخی‘ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے انہیں ’بے شرم اور انتہا پسند‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’عام طور پر سپاہی یعنی وہ افراد جو نیٹ ورک میں لائے جاتے ہیں اور جو حملے کرتے ہیں، انہیں ہی انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کسی لیڈر کے ساتھ ایسا ہو، یہی وجہ ہے کہ یہ ایک خاص طور پر اہم لمحہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک تاجر کے بیٹے انجم چوہدری 2000 کی دہائی کے اوائل میں برطانیہ کی مساجد، سفارت خانوں اور پولیس سٹیشنوں کے سامنے مظاہرے کرنے کے بعد میڈیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پر اسلام کا پرچم لہرانا تھا۔

انہیں 2016 میں داعش کی حمایت کی حوصلہ افزائی کرنے پر ساڑھے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور 2018 میں جیل سے جلد رہا کر دیا گیا تھا۔

کینیڈا کے شہر ایڈمنٹن سے تعلق رکھنے والے انجم چوہدری کے ساتھی 29 سالہ خالد حسین کو بھی اے ایل ایم کی رکنیت کا مجرم قرار دیا گیا ہے اور انہیں منگل کو سزا سنائی جائے گی۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق میٹروپولیٹن پولیس اور برطانیہ کی جاسوس ایجنسی ایم آئی فائیو کی مشترکہ تحقیقات میں نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ اور رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس نے مدد کی، جنہوں نے مل کر شواہد اکٹھے کیے کہ انجم چوہدری نیویارک میں مقیم پیروکاروں کے ساتھ آن لائن لیکچرز کے ذریعے المہاجرون کو چلا رہے تھے اور ہدایت دے رہے تھے۔

پولیس نے کہا کہ خالد حسین نے دوسرے انتہا پسندوں کے ساتھ لیکچرز کی میزبانی کرنے میں ان کی مدد کی اور انجم چوہدری کے لیے انتہا پسند آن لائن بلاگز اور اشاعتوں میں ترمیم کی۔

انجم چوہدری نے امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے ذمہ دار افراد کی تعریف کر کے اور بکنگھم پیلس کو مسجد میں تبدیل کرنے کی خواہش ظاہر کر کے میڈیا میں توجہ حاصل کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا