ایک بچہ جو راولپنڈی کے چھاچھی محلے میں 1941 میں پیدا ہوا۔ تقسیم کے وقت سات سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ ہندوستان چلا گیا، پھر مڑ کر کبھی پاکستان نہیں آیا۔
مگر پاکستان سے محبت اس قدر تھی کہ یہاں سے جانے والے نامور گلوکار، شاعر اور فنکاروں کی میزبانی کرتا تھا ان سے پاکستان اور اپنی جنم بھومی کے بارے میں باتیں کرتا تھا۔
وہ جب اس سال فروری میں 82 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کر گئے تو ان کی بیٹی نے ان کی راکھ کا ایک حصہ ہندوستان میں بہایا اور دوسرا اسلام آباد بھیج دیا تاکہ گولڑہ شریف میں ان کی راکھ کو دفن کیا جائے تو شاید ان کی بے قرار روح کو چین آئے، کیونکہ ان کے پورے خاندان کی روحانی نسبت پیر مہر علی شاہ سے تھی۔
وہ ساری زندگی اپنی مٹی کی محبت میں گرفتار رہے۔ زندگی میں تو پاکستان نہیں آ سکے مگر ان کی ارتھی کو پاکستان بھیج کر گولڑہ شریف کی خاک میں ملا دیا گیا۔
کملیش کمار کوہلی کون تھے؟
راولپنڈی شہر، جس کی تقسیم کے وقت 57 فیصد آبادی غیر مسلم تھی، کی سماجی، سیاسی اور کاروباری زندگی پر ہندوؤں اور سکھوں کا راج تھا۔ کوہلی خاندان بھی ان میں سے ایک تھا۔
کملیش کمار کوہلی کے والد سائیں داس کوہلی سرکاری آفیسر تھے، جو چھاچھی محلے میں ایم ایم عالم روڈ نزد کمیٹی چوک مقیم تھے۔ یہیں پر شری ہربنس لعل کا بھی گھر تھا، جن کے بیٹے بھیشم ساہنی اور بلراج ساہنی نے انڈیا میں بہت شہرت پائی۔ بھیشم ساہنی نامور ناول نگار اور افسانہ نگار تھے جنہوں نے بہت مشہور فلمیں اور ڈرامے بھی لکھے اور انہیں انڈیا کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پدما بھاشن بھی ملا۔
ان کے بھائی بلراج ساہنی 60 کی دہائی کے نامور ہیرو گزرے ہیں۔ اسی چھاچھی محلے میں کملیش کمار کوہلی کے بھی بچپن کے دن گزرے۔ وہ ہندوستان چلے گئے وہاں نام کمایا مگر خود کو گنگا جمنی تہذیب سے وابستہ کیے رکھا۔
ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر واپس انڈیا جا کر کپڑے اور چمڑے کی تجارت شروع کر دی۔ دنیا کے کئی ممالک کو ہندوستانی مال برآمد کرتے رہے۔
1990 میں اپنی شریک حیات کی وفات کے بعد کاروبار کو خیر آباد کیا اور خود کو فن و ثقافت سے منسلک کر دیا۔ گنگا جمنی تہذیب کو اجاگر کرنے کے پیچھے ان کی صوفیا اور روحانیت سے وابستگی تھی۔ وہ تکثیری سماج کے قائل تھے، جس کے فروغ کے لیے انہوں نے میوزک اور تھیئٹر کا سہارا لیا۔
زندگی کے آخری 35 سالوں میں انہوں نے متعدد تھیٹئر اور فکری نشستیں کیں، جن میں غالب کے خطوط، دارا شکوہ، وچھڑے پانی (تقسیم کے پس منظر میں پنجابی موسیقی)، ’کچھ عشق کیا کچھ کام،‘ ’عشق‘ وغیرہ ان کے وہ تھیئٹر ڈرامے ہیں جن کی شہرت انڈیا اور دنیا بھر میں پھیلی۔
بلھے شاہ پر فکری نشستیں منعقد کیں جہاں ان کے کلام کو نامور گلوکاروں نے پیش کیا۔ وہ انڈیا کے نوجوان فنکاروں اور اس شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے تن تنہا سینکڑوں شوز کیے جن کا مقصد لوگوں میں امن اور محبت کا فروغ تھا۔ پاکستان سے جانے والے فنکاروں اور ادیبوں کے لیے ہمیشہ دیدہ و دل فراشِ راہ کیے رکھا۔
مہدی حسن لندن میں، نصرت فتح علی خان، احمد فراز اور عابدہ پروین دہلی میں ان کے گھر پر مہمان بنے۔ استاد شفقت علی خان کے شوز کا انتظام پچھلے 16 سال سے ان کی بیٹی منوں کوہلی کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راولپنڈی سے کوہلی کی محبت کی وجہ کیا تھی؟
منوں کوہلی جو ان کی بیٹی ہیں اور انڈیا میں موسیقی اور آرٹ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ کئی بار پاکستان جا چکی ہیں جس کی ایک وجہ جہاں فنکاروں اور گلوکاروں سے ملنا تھا وہاں اپنے باپ کی جنم بھومی اور ان یادوں کو محسوس کرنا تھا جس کا تذکرہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ کرتے رہے ہیں۔
’والد بتاتے تھے کہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے ننھیال کے پاس ایبٹ آباد جایا کرتے تھے جہاں پھلوں کے باغات ہوتے تھے۔ ان کا خاندان اگرچہ ہندو تھا مگر روحانی طور پر وہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے معتقد تھے اور باقاعدگی سے وہاں حاضری دیا کرتے تھے۔ پیر مہر علی شاہ کے انتقال کے چار سال بعد کملیش کمار کوہلی راولپنڈی میں پید اہوئے مگر ان کی صاحب دربار سے روحانی وابستگی زندگی بھر رہی۔
منوں کوہلی کہتی ہیں کہ ’پاکستان سے جو بھی ملنے والا آتا وہ ان کے لیے گولڑہ شریف سے لنگر یا چادر ضرور لاتا تھا اور وہ اسے بہت عقیدت سے رکھتے تھے۔ جب میں 2012 میں پاکستان گئی تو میں بھی گولڑہ شریف گئی اور ان کے لیے دربار سے تبرکات لائی۔
’زندگی کے آخری سالوں میں وہ گولڑہ شریف کو بہت یاد کرتے تھے۔ ہم بہن بھائی انہیں پاکستان لانا چاہتے تھے مگر دونوں ملکوں کے خراب تعلقات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ اس سال فروری میں جب ان کی وفات ہوئی اور ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں تو میں نے فیصلہ کیا کہ والد کی ارتھی کا ایک حصہ گولڑہ شریف میں دفن کیا جائے تاکہ ان کی روح کو سکون مل سکے۔
’تقسیم کے وقت وہ چھ سال کے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ جب راولپنڈی فسادات کی زد میں تھا اور وہ صبح سویرے دودھ لینے کے لیے اپنی دادی کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے تو گلیوں میں لاشیں پڑی ہوتی تھیں۔ ان کا خاندان بحفاظت دہلی پہنچ گیا تھا کیونکہ ان کے والد سرکاری افسر تھے۔ دہلی میں انہیں جو مکان الاٹ ہوا وہ کسی مسلمان کا چھوڑا ہوا تھا جو ان کی دادی نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ وہ اپنا ہنستا بستا گھر چھوڑ کر آئی ہیں وہ کیسے کسی اور کا ایسا ہی گھر لے سکتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دہلی میں اپنا مکان خریدا اور وہاں رہیں۔‘
پیر مہر علی شاہ سے عقیدت کیوں؟
بھیشم ساہنی کا مشہور ناول ’تمس‘ جس پر فلم بھی بنی، اس میں ایک منظر ہے جس میں راولپنڈی شہر فسادات کی لپیٹ میں ہے۔ شہر سے جگہ جگہ دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔
ایسے میں پیر مہر علی شاہ ایک بازار سے گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ہندو حلوائی آگے بڑھ کر ان کی قدم بوسی کرتا ہے اور ساتھ والے دکاندار کو کہتا ہے کہ ’میرا بیٹا ایک مہینے سے بخار میں مبتلا تھا، کسی دوائی سے آرام نہیں آ رہا تھا، آخر گولڑہ شریف جا کر پیر صاحب سے دم کروایا تو بخار ٹوٹا۔‘
دوسرا دکاندار کہتا ہے کہ ’پیر صاحب آ گئے ہیں اب شہر میں امن قائم ہو جائے گا۔‘
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ پیر صاحب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اور سکھوں میں بھی عقیدت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
منوں کوہلی کہتی ہیں کہ ان کے والد کملیش کمار کی پاکستان سے وابستہ جو چند یادیں تھیں ان میں ایک گولڑہ شریف کی بھی تھی جہاں تواتر کے ساتھ ان کا خاندان حاضری دیا کرتا تھا۔
ان کے والد صوفیا کی شاعری اور ان کے فلسفے کی تبلیغ ساری زندگی کرتے رہے۔ ان کا جب دہلی میں انتقال ہوا تو ایک دن ان کی آخری رسومات ہندوانہ طریقے سے ہوئیں جبکہ اگلے روز گردوارے میں ہوئیں۔
منوں کہتی ہیں کہ ’پیر مہر علی شاہ سے ان کی روحانی وابستگی کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ والد کی راکھ کا ایک حصہ گولڑہ شریف میں دفن کیا جائے۔ جو چند دوستوں کی مدد کی وجہ سے ممکن ہو گیا۔‘
منوں کوہلی کے مطابق ’ہم انہیں گولڑہ شریف نہیں لا سکے لیکن اتنا اطمینان ضرو ر ہے کہ ان کی ارتھی کو گولڑہ شریف کی مٹی نصیب ہوئی ہے۔‘
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔