ملک عزیز میں ہیرو سازی کا ایک ہی کارخانہ ہے۔ کمپنی بہادر نے جیسے اسلحہ سازی مغلوں سے لے کر انہیں لوہار بنا کے چھوڑ دیا، اسی طرح ہیرو سازی کا کام بھی اپنے پاس ہی رکھا۔
بعد ازاں یہ روایت، وراثت کی طرح سنبھال لی گئی، چنانچہ ہر دو طرح کے آرڈیننس اور ہیرو وہیں بنتے رہے۔
کسی بھی صنعت کی طرح ہیرو سازی میں بھی بننا بگڑنا لگا رہتا ہے۔ گو ن م راشد کا خیال تھا کہ
’زمانہ، جہاں زاد!
وہ چاک ہے جس پہ
کوزوں کی طرح بنتے بگڑتے ہیں انساں‘
مگر ہمارا مشاہدہ کچھ اور ہے۔ ہمارے ہاں جس چاک پہ کوزوں کی طرح بنتے بگڑتے ہیں انسان، پچھلے دنوں اسی چاک پہ، گفتار کا ایک غازی دھڑام سے گرا اور اس کے پرخچے اڑ گئے۔
سر کہیں گیا، دھڑ کہیں، بازو، ٹانگیں سب پرزہ، پرزہ۔ اب ہم لوگ تو بے چارے ہمیشہ سے ہی ٹوٹے بت جوڑنے کے عادی ہیں، پس یہاں بھی ریزے چن چن کر دوبارہ سے ہیرو تشکیل دیا جا رہا ہے۔
ذکر ہمارے محترم خلیل الرحمان قمر صاحب کا ہے۔ ڈراما لکھا کرتے ہیں اور ان کے ڈرامے اچھی کاسٹ، اکانومی آف کریکٹرز اور پاپولسٹ اپروچ کی وجہ سے کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے وہ ڈراموں کے ناصر ادیب (مولاجٹ کے سکرپٹ رائٹر) ہیں۔
یہاں تک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ عوامی جذبات پہ عوامی ڈراما لکھنا، جو عوام میں پہلے سے موجود غلط درست سماجی اقدار اور عمومی خیالات کی ترجمانی کرتا ہے، انہی کو جوڑ کے کہانی ترتیب دینا کمرشل ادیب کا اکثر یہ ہی انداز ہوتا ہے۔
مسئلہ وہاں سے شروع ہوا جب ہمارے محترم کو نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا خیال آیا یا دلایا گیا۔ اب کیا تھا، تابڑ توڑ اناڑی کی بندوق چلنا شروع ہوئی اور عوام نے تالیاں بجانا شروع کیں۔
تالیوں کی یہ آواز قارئین کرام، انسان کی عقل خبط کر لیتی ہے۔ ایک ہیرو کا انجام آپ کے سامنے ہے، یہ بھی ہیرو سازی کی صنعت سے نکلے اور تالیوں کی آواز پہ مست ہو گئے۔
تالیاں بجانے والے ہمارے کرم فرما سب سے خوف ناک لوگ ہوتے ہیں۔ یہی لوگ تالی پیٹ بھی دیتے ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ گالیاں جب تک عورتوں کو دی جا رہی تھیں، تالیاں بجتی رہیں۔
طلاق شدہ عورتوں پہ حرف اٹھایا گیا، عورت کو بے وفا اور موقع پرست کہا گیا، پہلے سے غیر محفوظ عورت کو مزید غیر محفوظ کر کے عورت کے خلاف نفرت اور جرائم کو دانستا ہوا دی گئی، ہیرو بنتا رہا، تالیاں بجتی رہیں۔
’کہ تیرے جیسی عورتیں، جہاں زاد،
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں ’سلجھ‘ سکا
جو میں کہوں کہ میں ’سلجھ‘ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے!
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں‘
پھر ہیرو بنانے والے ان تالیوں کی آواز سے چونکے اور دیکھا کہ ہیرو ممنوع حد سے آگے جا رہا ہے۔ تالی پٹنے کا وقت آ چکا تھا، ایک ویڈیو، وہی عورت جسے دیکھ کر منہ سے لغویات کے علاوہ کوئی لفظ نہیں نکلتا تھا ہیرو کے پرخچے اڑانے کا سبب بن گئی۔
چاک کسی کا تھا، ہاتھ کسی کے تھے ہیرو کے دھرے اڑ گئے۔ پاکستانی مردوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا واحد ترجمان چسکے بازوں کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلے دو ایک روز میں جو حیرت تھی وہ بھی دور ہو چکی، اب ٹھٹھول ہے، میمز ہیں، سینہ بسینہ، گوش بگوش منتقل ہوتے راز ہیں اور کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پیٹی برادری کے باعث مذمت کرنے کا سوچا، پھر مذمت کے ایک ایک حرف نے اس مذمت کی اتنی مذمت کی کہ مذمت کی ہمت نہ ہوئی۔ خاموشی اختیار کر لی۔
قصہ مختصر، عامیانہ شاعری، بازاری زبان، تھڑے کے نظریات اور گیلری کے لیے مکالمے لکھنا اور ان پہ تالیاں بجانا اور ذرا سی دیر ہنس کے سو جانا، سستی تفریح کے لیے تو درست ہے۔ مگر جب یہی ہیرو قوم کی تربیت اور ذہن سازی کے لیے اٹھایا جائے گا تو پھر انجام ایسا ہی ہو گا۔
اس حادثے یا واقعے یا سانحے سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ویڈیو سب کی بنے گی، موت کی طرح اس سے کسی کو رستگاری نہیں تو بہتر یہی ہے کی لوگوں کی ویڈیوز پہ ہنسنا اور انہیں دیکھ کے رائے بنانا چھوڑ دیجیے۔
رائے بنائیے، مگر ان کے ان خیالات کے باعث جن کا اظہار وہ خم ٹھونک کے کرتے ہیں۔ ویڈیو تو صاحب! ایک دن آپ کی بھی لیک ہو گی، جی، بالکل ہو گی۔
نوٹ: کالم نگار معروف ڈراما نگار اور مصنفہ ہیں اور ان کے کئی ڈرامے اور ناول عوامی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔