کبھی نئے لوگوں سے ملنا ہو تو ان کے مخصوص سوالات ہوتے ہیں۔ آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتی ہیں؟ خاندان میں کون کون ہے؟ کام کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں؟
ان کے علاوہ ایک یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ آپ فن (تفریح) کے لیے کیا کرتی ہیں؟
مجھے آج تک اس سوال کی سمجھ نہیں آ سکی۔
پاکستان میں کون فن کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے؟ میں نے کبھی یہاں کسی کو فَن کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میری پوری زندگی پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہوئے گزر گئی۔ چاہے بس ہو، ویگن ہو، ٹیکسی ہو یا رکشہ ہو، مجھے ہر جگہ پریشان لوگ ہی نظر آئے۔ گاڑی کے اندر بھی اور باہر بھی۔
میں نے کبھی کسی کے چہرے پر مسکراہٹ یا اطمینان نہیں دیکھا۔
یہاں ہر انسان جیسے کسی پریشانی کا شکار ہے۔ کوئی بات کر لے تو پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے بلکہ ڈر لگنا شروع ہو جاتا ہے کہ جانے یہ کون ہے، اس کا کیا مقصد ہے اور یہ مجھے کس طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ایسے پریشان معاشرے میں کوئی فَن کیسے کر سکتا ہے۔
اگر کوئی یہاں فَن کرنے کی آزادی رکھتا ہے تو اس کا تعلق کسی مخصوص طبقے سے ہو سکتا ہے جو اپنے آپ میں ایک اقلیت ہے۔
ان کی دنیا ہی الگ ہے۔ بڑے بڑے گھر، ہر جگہ اے سی اور ہیٹر، شاندار گاڑیاں، گھر سے نکلے، گاڑی میں بیٹھے اور اپنی اقلیت کے لیے مخصوص کسی جگہ پہنچ گئے۔
وہاں آرام سے بیٹھے، کھایا پیا، باتیں کیں، قہقہے لگائے یا ان کی زبان میں کہیں تو ’چِل‘ کیا۔
کبھی تیراکی کرنے چلے گئے تو کبھی ٹیبل ٹینس کھیلنے لگے تو کبھی جِم چلے گئے تو کبھی سوانا باتھ میں بیٹھ گئے۔
غرض درجنوں سرگرمیاں ہیں۔ جو چاہے کر لی۔
ایک طرف سے بور ہوئے تو دوسری طرف بڑھ گئے۔ وہاں سے دل اکتایا تو کہیں اور نکل گئے۔
ہماری تو دنیا ہی الگ ہے۔ اس دنیا میں فَن یا چِل نہیں ہوتا۔ یہاں بس پریشانی ہوتی ہے۔
شدید گرمی ہوگی لیکن بس ایک پنکھا چلے گا۔ اے سی کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگے گا کہ کہیں ایسا کرنا بھی بِل میں چند ہزار کا اضافہ نہ کر دے۔
نہ ہمارے گھروں کے پاس کوئی پارک ہوتا ہے، جہاں ہم شام میں چہل قدمی کے لیے بھی جا سکیں۔ نہ ہماری گلیاں اور سڑکیں محفوظ ہوتی ہیں، جہاں ہمارے بچے سائیکل چلا سکیں۔
نہ ہماری اس دنیا میں سوئمنگ پول ہوتے ہیں، نہ ٹینس اور بیڈمنٹن کورٹ ہوتے ہیں، نہ کیوٹ سے کیفے ہوتے ہیں جہاں ہم سو روپے کی چائے ہزار روپے میں چسکیاں لے کر پی سکیں۔
ہماری دنیا میں بس ہمارا گھر، بڑا سا خاندان، کم آمدنی، بہت زیادہ غیرت اور لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ہم انہی مسائل اور وسائل کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔
درمیان میں کبھی فَن کا دل کرے تو کچھ اچھا سا پکا کر گھر والوں کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔ کسی رشتے دار کی طرف چلے جاتے ہیں یا کسی کی شادی کروا دیتے ہیں تاکہ وہاں سب سے ملیں، باتیں کریں، گپیں لگائیں اور اگلے کچھ ماہ اس شادی کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے گزاریں۔
اسی میں ہمارا سارا فَن ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اللہ میرے دادا کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ وہ اپنی پوری زندگی سالگرہ منانے کے خلاف رہے۔
ان کی وفات سے دو سال قبل نوجوان نسل نے ان کی سالگرہ منانے کا منصوبہ بنایا۔ چپکے چپکے تیاریاں ہوئیں۔ سب کو فون گئے۔ سالگرہ والے دن آنے کا کہا۔ سجاوٹ کی گئی، کیک لایا گیا، تحائف خریدے گئے اور پھر اچانک دادا کے کمرے پر سب نے دھاوا بول دیا۔
دادا حیران رہ گئے۔ کہاں ان کا پورا دن اکیلے اپنے بستر پر کتابیں پڑھتے ہوئے گزرتا تھا اور کہاں ان کا ہر بچہ اپنے بچوں سمیت ان کے کمرے میں موجود تھا۔
اس دن وہ اتنے خوش ہوئے کہ شیخ ہونے کے باوجود محفل کے اختتام تک اپنے ہر بچے کو اپنی جیب سے حج کروانے کا وعدہ کر لیا۔
پر شیخ تھے، دو دن میں اپنا وعدہ بھول گئے۔ ان کے جس بچے نے حج کیا، اپنے پیسوں سے ہی کیا۔
مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں نے اس دن کے علاوہ کبھی اپنے دادا اور ان کے بچوں کو فَن کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
اس دن سب خوش تھے۔ ایک دوسرے سے مذاق کر رہے تھے۔ بچے آپس میں لگے ہوئے تھے۔ دادا خوشی خوشی تحائف کھول رہے تھے۔
کسی نے بسکٹ کا ڈبہ دیا تھا تو کسی نے ان کا پسندیدہ گُڑ دیا تھا۔ کوئی پاجامہ لایا تھا تو کوئی ان کے ریڈیو کے سیل لایا تھا۔ وہ ایسے چھوٹے چھوٹے تحائف پر بھی خوش ہو رہے تھے۔
اس دن شاید وہ پچھتائے بھی ہوں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی سالگرہ منانے کی مخالفت کیوں کی، گرچہ اس میں ایسی کوئی برائی نہیں تھی۔
غالباً میں نے بھی اپنے دادا کی طرح خود کو ایسی بہت سی چیزوں سے زبردستی دور رکھا ہوا ہے۔
میں زندگی میں کبھی ان چیزوں کو کروں تو شاید مجھے اس سوال کا مطلب سمجھ آنے لگے اور میں جواب میں فوراً کہوں کہ جی، میں فَن کے لیے یہ کرتی ہوں۔
فی الحال تو میں اس سوال پر بس حیران ہوتی ہوں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔