قطر جمعرات کو غزہ میں فائر بندی کے لیے مذاکرات کی میزبانی کرنے جا رہا ہے، جن کا مقصد ایک ایسا معاہدہ کروانا ہے جو اب تک ممکن نہیں ہو سکا اور امریکہ کو امید ہے کہ اس معاہدے سے ایران اسرائیل پر حملے روک دے گا اور ایک بڑی جنگ سے بچا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق امریکہ، قطر اور مصر کے ثالثوں نے اسرائیل اور حماس کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جس کا مقصد لڑائی ختم کرنا ہے، جس میں غزہ کی وزارت صحت کے بقول تقریباً 40 ہزار افراد جان سے جا چکے ہیں۔
حماس اور مذاکرات کے قریبی ذرائع نے بدھ کو بتایا کہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوں گے۔
دوحہ اجلاس سے واقف امریکی ذرائع کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اسرائیل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کرے گا، تاہم یہ واضح نہیں کہ حماس، اس میں شرکت کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں۔
اب تک غزہ میں نومبر 2023 میں صرف ایک ہفتے تک فائر بندی ہوئی تھی، اس کے بعد سے ثالثی کی کوششیں بار بار تعطل کا شکار ہیں۔ اس وقت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے درجنوں اسرائیلی قیدی رہا کیے تھے۔
ایک حماس کے عہدیدار نے کہا کہ وہ ’ثالثوں کے ساتھ اپنے مشورے جاری رکھے ہوئے ہے‘، کیونکہ اس نے مزید مذاکرات کرنے کے بجائے اس تجویز کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا جو امریکی صدر جو بائیڈن نے 31 مئی کو پیش کی تھی۔
جو بائیڈن نے اس وقت کہا تھا کہ مرحلہ وار منصوبہ ابتدائی چھ ہفتوں کی ’مکمل فائر بندی‘، غزہ سے کچھ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور محصور علاقے میں انسانی امداد میں ’اضافہ‘ سے شروع ہوگا جبکہ متحارب فریق ’لڑائی کے مستقل خاتمے‘ پر بات چیت کریں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے بدھ کو کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے حالیہ دنوں میں مشرق وسطیٰ کے متعدد ہم منصبوں کو بتایا کہ ’یہ فائر بندی معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہمیں اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور یہ کہ کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘
ثالثی کی یہ تازہ کوشش ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب 31 جولائی کو حماس کے سربراہ اور فائربندی کے مذاکرات کار اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس قتل کا الزام ایران اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل پر لگایا ہے، جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تہران اور خطے میں اس کے حمایت یافتہ گروہوں نے اس کا بدلہ لینے کا عہد کیا ہے، جس سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کی لڑائی کے 10 ماہ سے زیادہ عرصے بعد وسیع تر تنازع کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
’کوئی نہیں جانتا‘
مغربی رہنماؤں نے تہران پر زور دیا ہے کہ وہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر اسرائیل پر حملہ کرنے سے گریز کرے۔ یہ واقعہ بیروت میں اسرائیلی حملے میں حماس کے اتحادی حزب اللہ کے ایک سینیئر کمانڈر کی موت کے چند گھنٹوں بعد پیش آیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا غزہ میں فائر بندی کا معاہدہ اسرائیل پر ایران کے ممکنہ حملے کو روک سکتا ہے، بائیڈن نے کہا: ’مجھے یہ امید ہے۔‘
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران مغربی ممالک کے اس مطالبے کو مسترد کرتا ہے کہ ’وہ اس حکومت کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرے، جس نے اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے امید ظاہر کی تھی کہ جوابی کارروائی ’غزہ میں ممکنہ فائر بندی کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ خفیہ ایجنسی موساد اور شین بیٹ خفیہ ایجنسی کے سربراہ دوحہ مذاکرات میں شرکت کریں گے۔
اس سے قبل امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ’قطر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ حماس کی بھی نمائندگی ہو۔‘
قطری وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے بدھ کو اینٹنی بلنکن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے ’لڑائی کے خاتمے کے لیے مشترکہ ثالثی کی کوششوں‘ اور ’کشیدگی میں کمی کی ضرورت‘ پر تبادلہ خیال کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’خطے میں کسی بھی فریق کو ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہییں جن سے کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔‘
اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ملک ’ایرانی حکومت اور اس کے دہشت گرد آلہ کاروں کی نفرت سے بھری دھمکیوں‘ کی وجہ سے ’ہائی الرٹ‘ پر ہے۔
’ہم سب تکلیف میں ہیں‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر 2023کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے غیر معمولی حملے کے نتیجے میں 1198 افراد مارے گئے تھے جبکہ 251 افراد کو قیدی بنایا گیا، جن میں سے 111 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں سے 39 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کی جارحیت سے تقریباً 40 ہزار افراد جان سے جا چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران درجنوں فضائی حملے کیے ہیں اور فلسطینی شہری دفاع کے امدادی کارکنوں نے غزہ کی پٹی میں توپ خانے کی گولہ باری اور فضائی حملوں کی اطلاع دی ہے۔
لبنان میں، وزارت صحت نے بتایا کہ اسرائیل کے مختلف حملوں میں دو افراد مارے گئے ہیں جو غزہ تنازع کے دوران سرحد پار تشدد کا تازہ ترین واقعہ ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے دو جنگجو مارے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی فضائیہ نے حزب اللہ کے فوجی ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے۔
متعدد حکومتوں نے لبنان کے سفر کے خلاف ایڈوائزری جاری کی ہے اور جنگ شروع ہونے کی صورت میں اپنے شہریوں کو خطے سے نکالنے کے لیے ہنگامی منصوبہ تیار کیا ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں خطے میں ایک طیارہ بردار جنگی بحری جہاز اور ایک گائیڈڈ میزائل آبدوز بھی تعینات کی ہے۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر فرانسیسی وزیر خارجہ سٹیفن سیجورن جمعرات کو بیروت کا دورہ کریں گے۔
فلسطینی شہری ابراہیم مخامر نے وسطی غزہ کے علاقے دیر البلاح میں اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم لڑائی کے خاتمے کی امید کرتے ہیں۔‘
ابراہیم مخامر نے ایک ایسے علاقے، جہاں 24 لاکھ لوگوں میں سے اکثریت اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے کم از کم ایک بار بے گھر ہوچکی ہے، میں ’بھوک کی پالیسی‘ اور طبی سامان کی کمی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’ہم سب مشکلات کا شکار ہیں۔‘