پاکستان کی ریاستی مشینری کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور انتظامی اخراجات کم کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر وفاقی حکومت نے پانچ وزارتوں میں سے 28 محکموں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ایک اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی ایک اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں۔
اجلاس کو پانچ وزارتوں بشمول امورِ کشمیر اور گلگت بلتستان، ریاستی و سرحدی امور (سیفران)، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن، صنعت و پیداوار اور نیشنل ہیلتھ سروسز میں اصلاحات پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں وزارت برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان کو ریاستوں اور سرحدی علاقوں میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔
اصلاحاتی کمیٹی کی جانب سے سفارش کی گئی تھی کہ ان پانچ وزارتوں کے تحت 28 اداروں کو یا تو مکمل طور پر بند کر دیا جائے، پرائیویٹائز کر دیا جائے یا صوبوں کو منتقل کر دیا جائے۔
کمیٹی کی سفارشات میں ان پانچ وزارتوں میں 12 اداروں کو مضبوط کرنے کی تجویز بھی شامل تھی۔
اصلاحاتی کمیٹی نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی اور صفائی اور چوکیدارانہ خدمات جیسے غیر بنیادی کاموں کو آؤٹ سورس کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے نتیجے میں گریڈ ایک سے 16 میں مختلف آسامیوں کو بتدریج ختم کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیٹی نے ہنگامی آسامیوں پر بھرتیوں پر مکمل پابندی اور وزارتوں کے کیش بیلنس پر وزارت خزانہ کی نگرانی کی بھی سفارش کی۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ اس تجویز کو منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ایک جامع پلان تیار کرکے پیش کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی ادارہ جاتی اصلاحات کا مقصد قومی خزانے پر بوجھ کو کم کرنا اور عوام کو فراہم کی جانے والی خدمات کو بہتر بنانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن ریاستی اداروں نے عوامی خدمت کے حوالے سے خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی اور وہ قومی خزانے پر بوجھ ہیں، انہیں یا تو فوری طور پر بند کیا جائے یا ان کی فوری نجکاری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی نگرانی کریں گے، جس کا مقصد اس سیکٹر میں کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ انہوں نے اتھارٹی کو وزیراعظم آفس کے تحت لانے کی ہدایت بھی کی۔