وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی حکومت میں ’رائٹ سائزنگ‘ کے امور کے حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے جسے پہلے مرحلے میں پانچ وزارتوں کی رائٹ سائزنگ یا جائز حجم پر لانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
’رائٹ سائزنگ‘ کیا ہے، اور کیسے کی جائے، اس بارے میں کمیٹی میں تمام پانچ وزارتوں کے تفصیلی اجلاس جاری ہیں جن میں زیر بحث ہے کہ متعلقہ شعبوں میں فرائض کی ادائیگی کے لیے وفاقی وزارت کا جواز ہے یا اس وزارت کو صوبوں کو منتقل کر دیا جائے یا مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔
یہ کمیٹی 14 جون کو بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جو متعلقہ وزارتوں سے بریفنگ لے کر اپنی رپورٹ تیار کرے گی۔
پانچ وزارتوں میں آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام، صنعت و پیداوار، امورِ کشمیر و گلگت بلتستان، سیفران اور نیشنل ہیلتھ سروسز کا نام شامل ہے۔ پانچ وزارتوں کی ادارہ جاتی اصلاحات کے سلسلے میں پہلے مرحلے میں رائٹ سائزنگ کی جائے گی۔
پانچوں وفاقی وزارتوں نے سوالوں کے جواب دینے کے لیے 12 جولائی سے اجلاس شروع کر رکھے ہیں اس سلسلے میں آخری اجلاس نو اگست کو ہو گا۔
کابینہ ڈویژن کے ادارہ جاتی اصلاحات سیل نے وزارتوں کو پانچ جولائی کو پرفارما بھجوایا تھا جس میں ڈویژن کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں کہ ڈویژن کے کتنے ونگ اور ماتحت ادارے ہیں، انتظامی ڈھانچہ کیا ہے، بجٹ اور عملہ کتنا ہے، رولز آف بزنس کے تحت ڈویژن کے کیا فرائض ہیں، فیڈرل قانونی لسٹ کے مطابق وفاق اور صوبوں کے فرائض کیا ہیں، ڈویژن کے قیام کا کیا جواز ہے؟
نوٹیفیکیشن کے مطابق کابینہ کا ادارہ جاتی اصلاحات سیل وزارتوں سے موصول معلومات کا تجزیہ کر کے وزیر اعظم کے لیے سفارشات تیار کرے گا، جبکہ رائٹ سائزنگ کمیٹی ادارہ جاتی اصلاحات سیل کی سفارشات پر اپنا حتمی تجزیہ پیش کرے گی۔ کابینہ ڈویژن نے متعلقہ وزارتوں سے کہا ہے کہ جو معلومات بھیجی جائیں وہ سیکریٹری اور وزیر سے تصدیق شدہ ہوں۔
وزیر خزانہ کے سربراہی میں بننے والی رائٹ سائزنگ کمیٹی کے دیگر ارکان میں وزیر منصوبہ بندی، وزیر اقتصادی امور پاور ڈویژن، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور کابینہ ڈویژن کے سیکرٹریز، مسٹر بلال اظہر کیانی، ڈاکٹر قیصر بنگالی اور ڈاکٹر فرخ سلیم شامل ہیں۔
رائٹ سائزنگ وقت کی ضرورت
وزارتوں کی رائٹ سائزنگ یا ڈاؤن سائزنگ، اس کے اثرات منفی ہوں گے یا مثبت؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں مختلف ماہرین سے بات چیت کی ہے۔
ڈاکٹر ساجد امین ایس ڈی پی آئی نے کہا کہ ’اگر پالیسی کے طور پر دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کو بہت زیادہ رائٹ سائز کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بےوجہ وزارتیں ہیں یا جو ایک جیسے ادارے ہیں انہیں ختم کر دینا چاہیے۔ کوئی بھی ایسا ملک جہاں ضرورت سے زیادہ ایک جیسے محکمے ہوں یا وزارتیں ہوں وہ بیڈ گورنس کی نشانی ہوتی ہے۔ حکومت کو یہ قدم بہت پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا۔‘
انہوں نے کہا، ’ہمیں صرف پیسے بچانے کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انتظامی طور پر بھی اس کو دیکھنا ہو گا۔ ایک ہی کام کو اگر چھ چھ محکمے کر رہے ہیں تو اگر وہ ایک جیسے ہیں تو انہیں ضم کرنے کی ضرورت ہے اور جو زائد ہیں، انہیں ختم کریں۔ وقت کے ساتھ چیزوں کو بہتر کرنا ہوتا ہے۔‘
ملازمین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’پوری دنیا میں ایسے ہوتا ہے کہ ادارہ بند ہونے کی صورت میں گولڈن شیک ہینڈ بھی دیا جاتا ہے۔ جبکہ کچھ ملازمین کو دیگر وزارتوں میں جگہ دی جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ درست سمت میں صحیح قدم ہے۔ غیر ضروری اخراجات بچانا بہت ضروری ہے۔ غیر ضروری وزارتوں کو ختم کرنے سے انتظامی معاملات بھی بہتر ہوں گے۔‘
اخراجات اور ان کے بڑھنے کی شرح کو روکنا ہو گا
ماہر معاشی امور خاقان نجیب نے کہا کہ ’پاکستان کو اپنا مالیاتی فریم ورک بہتے کرنے کے لیے اخراجات میں اصلاحات کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف اخراجات کو کم کریں بلکہ کلی طور پر ان کے بڑھنے کی شرح کو روکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے تحت ’کل 17 وزارتیں ایسی ہیں جو صوبوں کے حوالے کی گئی تھیں، ابھی پہلے مرحلے میں پانچ وزارتوں کی رائٹ سائزنگ ہو رہی ہے۔‘
خاقان نجیب نے مزید کہا کہ ’صرف وزارتوں کے خرچے منتقل کرنا کافی نہیں، بلکہ غربت ختم کرنے کے لیے ترقیاتی فنڈ بھی صوبوں کو دیا جائے۔‘
آئی ایم ایف کو اخراجات کم کرنے کی یقین دہانی رائٹ سائزنگ کی اہم وجہ
معاشی امور کے سینیئر صحافی شکیل احمد نے کہا کہ ’بنیادی طور اس ایکسرسائز کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کا بوجھ کم کیا جائے۔ 38 کے قریب وزارتیں اور محکمے ہیں جن پر ترقیاتی فنڈ خرچ کرنا پڑتا ہے اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرحلے پر پانچ وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی جائے۔
’وجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس 23 ایسے ادارے ہیں جنہوں نے 905 ارب روپے کے نقصانات کیے ہیں جن میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بھی شامل ہیں ان کے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں بھی رقم خرچ ہوتی ہے اور ریٹائرمنٹ کی صورت میں پینشن بھی۔
’آئی ایم ایف کو بھی یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ غیر ضروری اخراجات کی کٹوتی کی جائے گی۔ اگست کے مہینے میں ان پانچ وزارتوں سے متعلق حتمی فیصلہ ہو جائے گا۔ اگر یہ ماڈل کامیاب ہو گیا تو اگلے مرحلے میں مزید وزارتوں اور محکموں کی بھی باری آئے گی۔ ابھی مزید 17 وزارتیں اور 84 ایسے محکمے ہیں جن کی رائٹ سائزنگ ہو سکتی ہے۔‘
پانچ وزارتوں کے ملازمین کا مستقبل کیا ہو گا؟
ختم کی جانے والی وزارتوں کے ملازمین کا مستقبل کیا ہو گا، اس حوالے اس اب تک ہونے والے اجلاسوں میں مختلف تجاویز سامنے آئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق ریٹائرمنٹ کے قریب ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک پیکج دیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ ختم ہونے والی وزارتوں کے ملازمین کو دیگر وزارتوں میں ضم بھی کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ وزارتوں کے متاثرہ ملازمین کو سرپلس پول میں بھی شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
فیڈرل ایمپلائی ایسوسی ایشن کے رکن سید احمر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے بھی وزارتیں ضم ہوئی ہیں ان ملازمین کو اسی رینک میں دیگر وزارتوں میں جگہ دی جاتی ہے بعض اوقات پوچھا جاتا ہے کہ کون سی وزارتوں میں جانا چاہتے ہیں تو پھر اسی طرح انہیں تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہ اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ اگر زیادہ مسئلہ بنا تو ملازمین احتجاج کا طریقہ بھی اپنا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جو دو سال پہلے تعینات ہوا اس کو کیسے گولڈن ہینڈ شیک دے سکتے ہیں؟ اگر جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہے اگر وہ کام جاری رکھنا چاہتا ہے اور گولڈن ہینڈ شیک نہیں لینا چاہتاتو یہ ملازم کا اپنا فیصلہ ہو گا۔‘