افغانستان میں طالبان حکومت کے تین سال

افغان طالبان کی کامیابیاں اتنی بڑی نہیں کہ ان سے انہیں سفارتی شناخت مل سکے، جبکہ ناکامیاں اتنی سنگین نہیں کہ ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں۔

14 اگست، 2024 کو غزنی میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کی تیسری سالگرہ کے موقعے پر ایک فوجی پریڈ کے دوران طالبان فوجی اہلکار موٹر سائیکلوں پر سوار ہیں (اے ایف پی)

15 اگست کو امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تین سال مکمل ہوگئے ہیں۔

ان تین سالوں میں افغان باشندوں کی زندگیوں کے کچھ پہلوؤں میں بہتری آئی تو کچھ معاملات میں بگاڑ پیدا ہوا۔

کچھ معاملات میں طالبان نے نظریاتی طور پر سختی برتی تو کچھ جگہوں پر عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا۔

اس تحریر میں گذشتہ تین سالوں میں طالبان کی حکمرانی میں معیشت، سکیورٹی، علاقائی اور بین الاقوامی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ تعلقات اور سفارتی مصروفیات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

طالبان کی تحریک شورش سے حکومت کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں، جہاں غیر مرکزیت، نسلی اختلافات، اشخاص کے تنازعات اور پالیسی میں اختلاف ایک فطری عمل ہے۔

طالبان حکومت میں ازبک اور تاجک دھڑے پشتون گروہوں کی غالبیت اور امتیازی سلوک کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔

اسی طرح پشتون دھڑوں میں قندھاری اور حقانی دھڑوں کے درمیان طاقت کے توازن پر اختلافات ہیں۔

قندھاری دھڑوں کا خیال ہے کہ قطر میں ملا برادر کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں 2020 میں دوحہ معاہدے نے افغانستان سے امریکی انخلا کو آسان بنا کر فتح کی راہ ہموار کی تھی۔

اس کے برعکس حقانی دعویٰ کرتے ہیں کہ میدان جنگ کے دباؤ نے امریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔

تاہم، ان اختلافات کے باوجود طالبان کی طاقت کا مرکز قندھار ہے اور سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ تحریک کے ایک متحد شخصیت اور غیر متنازع رہنما ہیں۔

پچھلے تین سالوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلے پر طالبان رہنما منقسم نظر آتے ہیں۔

عملیت پسند لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت جبکہ سخت گیر موقف رکھنے والے اس کی مخالفت کرتے ہیں، جس نے 14 لاکھ نوجوان افغان لڑکیوں کو تعلیم کے حق سے محروم کردیا ہے۔

پرائمری سطح پر لڑکیوں کے سکول میں داخلے میں اضافے کے باوجود انہیں چھٹی جماعت سے آگے سکول جانے کی اجازت نہیں۔

طالبان رہنماؤں اور عالمی سفیروں کے درمیان حالیہ دوحہ کانفرنس کے دوران افغان خواتین کی وکالت، لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرنے والے اور سول سوسائٹیز کے رہنماوں کو باہر رکھا گیا تھا، جس سے لڑکیوں کی تعلیم کو بحال کرنے کی کوششوں کو بڑا ایک دھچکا لگا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کو اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے علاوہ سکیورٹی کے محاذ پر کسی قسم کے خاص چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اگرچہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2024 کے مطابق افغانستان دنیا میں دہشت گردی کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے، تاہم تشدد کے واقعات میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔

طالبان اپنی فوج کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اپنی آپریشنل صلاحیتیں بڑا رہے ہیں، جس میں وزارت داخلہ کے تحت دو لاکھ پولیس اہلکار اور وزارت دفاع کے تحت ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کو بھرتی کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔

 تاہم، طالبان کو مالی مشکلات کا سامنے ہے حالانکہ حکومت اپنے بجٹ کا 40 فیصد دفاع پر خرچ کرتی ہے۔

اگرچہ طالبان کو اس وقت کوئی بڑا سکیورٹی چیلنج درپیش نہیں، لیکن داعش خراسان جیسے خطرات موجود ہیں، جس نے نظریاتی اور پرتشدد حملوں کے ذریعے طالبان کی نظریاتی و قانونی حیثیت اور حکمرانی کی صلاحیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔

داعش خراسان نے افغان سرزمین کو بیرونی دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے دوحہ معاہدے کے تحت انسداد دہشت گردی کے وعدوں کو پورا کرنے کے حوالے سے طالبان کے دعوؤں کو نقصان پہنچایا ہے۔

روس، یورپ، ترکی، ایران، وسطی ایشیا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کئی کڑیاں افغانستان میں داعش خراسان سے ملتی ہیں۔

داعش خراسان نے طالبان کے کریک ڈاؤن کے مقابلے میں تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ افغان نیشنل آرمی کے سابق چیف آف سٹاف یاسین ضیا کا افغانستان فریڈم فرنٹ اور احمد مسعود کا نیشنل ریزسٹنس فرنٹ بھی طالبان مخالف جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ تائم انہیں خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔

اسی طرح القاعدہ کے ساتھ طالبان کے دیرانیہ تعلقات قائم ہیں اور کابل میں ایمن الظواہری کی موت کے بعد القاعدہ نے طالبان کے لیے سفارتی اور سکیورٹی چیلنجز پیدا نہ کرنے کے لیے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

لیکن یہ گروپ طالبان کو سٹریٹجک رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی مختلف رپورٹس کے مطابق، القاعدہ اپنی آپریشنل صلاحیت کو بہتر بنا رہی ہے اور علاقائی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ تعلقات کی تعمیرنو کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کا طالبان کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور وہ پاکستان میں بلاامتیاز حملے جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان معیشت ناکامی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اس خطرے میں کوئی کمی نہیں آئی۔

برین ڈرین، منجمد اثاثہ جات، بینکنگ پابندیوں نے افغان معیشت کو بحال کرنے کی طالبان حکومت کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

2021 اور 2022 میں افغانستان نے اپنی مجموعہ گھریلو پیداوار کا تقریباً 26 فیصد کھو دیا جس کی وجہ سے معیشت سکڑ گئی اور لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔

گذشتہ تین سالوں میں طالبان کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہے۔ امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر کے ذخائر کو غیر منجمد نہیں کیا۔

ان میں سے 3.5 ارب ڈالر ستمبر 2022 میں سوئٹزرلینڈ میں قائم ٹرسٹ میں منتقل کیے گئے ہیں تاکہ افغانستان کو معاشی استحکام میں مدد ملے، لیکن اس کی ادائیگی نہیں کی گئی۔

اس کے باوجود طالبان حکومت ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب ثابت ہوئی اور گذشتہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا۔

ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق اگست 2021 سے پہلے 62 فیصد کاروباری ادارے 82 فیصد کسٹم حکام کو رشوت دے کر ٹیکس سسٹم سے بچنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اب ان شعبوں میں رشوت کا تناسب محدود ہو کر آٹھ فیصد رہ گیا ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان کی سالانہ برآمدات دگنی ہوکر دو ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ افراط زر اب سنگل ہندسوں پر آ گیا ہے۔

چین نے میس عینک تانبے کی کان میں سرگرمیاں شروع کر دی ہیں، جہاں تانبے کے دنیا کے دوسرے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ بیجنگ نے افغانستان میں تیل کی پیداوار میں 49 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس سے ملک کی یومیہ تیل کی پیداوار میں 1,100 میٹرک ٹن اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 95 فیصد کمی ہوئی ہے، جو دنیا میں کہیں بھی انسداد منشیات کی سب سے کامیاب مہم ہے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے ہر قسم کی منشیات کی خلاف مہم شروع کی۔ منشیات کے عادی افراد اور فروخت کرنے والوں کو گرفتار کیا اور افیون اور بھنگ کے فصلوں کو تباہ کیا۔

اگرچہ سفارتی محاذ پر کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا، لیکن روس اور چین نے کابل کے ساتھ اپنی سفارتی نزدیکی کو بڑھایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین اور افغانستان نے ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے اپنے سفیر مقرر کیے ہیں جبکہ انڈیا نے بھی گذشتہ افغان حکومت کے افغان سفارت کاروں کو دہلی میں سفارت خانہ خالی کرنے پر مجبور کیا ہے۔

دونوں ممالک کی سفیر تعینات نہ کرنے کے باوجود یہ فیصلہ اس سمت میں ایک چھوٹا اقدام ہے۔

دوسرے ممالک کو اپنی حکومت کو تسلیم کرنے پر قائل کرنے میں ناکامی کے باوجود طالبان سفارتی محاذ پر کافی متحرک رہے ہیں۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مطابق طالبان کے نمائندوں نے گذشتہ تین سالوں میں 92 ممالک کے ساتھ 1,864 مرتبہ ملاقاتیں کیں، جن میں سب سے زیادہ مصروفیات چین، ترکی، ایران، قطر اور پاکستان کے ساتھ ہوئیں۔

پاکستان اور تاجکستان کو چھوڑ کر طالبان کے چین، روس، ازبکستان، قطر کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ طالبان حکومت انڈیا، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر ریاستوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔

امریکہ نے بھی طالبان کو محدود اور خفیہ طور پر داعش خراسان جیسے خطرناک گروہوں سے نمٹنے کے لیے علحیدگی کی پالیسی کو ترک کر کے کچھ معاملات پر تعاون جاری رکھا ہے۔

طالبان کی طاقت کے استحکام کے باوجود افغانستان ایک فعال آئین کے بغیر ایک نازک حالت میں ہے۔

طالبان کی گذشتہ تین سالوں کی کامیابیاں اتنی بڑی نہیں کہ ان سے انہیں سفارتی شناخت حاصل ہو سکے، جبکہ ناکامیاں اتنی سنگین نہیں کہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X:@basitresearcher.

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ