افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لوگ حوالے کردیں، بات ختم ہوجائے گی: آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکمرانوں کو افغانستان کے شدت پسندوں کی پراکسی جنگ کا محور بننے کے بارے میں خدشات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی نے 12 اگست 2024 کو انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے معاملے پر وہ افغان طالبان سے رابطے میں ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی کا کہنا ہے کہ اگر طالبان اپنے ملک میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے افراد کو اسلام آباد کے حوالے کر دیں تو مسئلہ ختم ہو جائے گا۔

ہمسایہ ملک میں طالبان تحریک کی دوسری حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سینیئر سفارت کار آصف درانی کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں جو (ٹی ٹی پی کے) لوگ رہ رہے ہیں انہیں ان کے خلاف اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ان کو ہمارے حوالے کر دیں، بات ختم ہو جائے گی۔‘

افغان عبوری حکومت کے ایک بیان کے مطابق افغان کیلنڈر ہجری شمسی کے مطابق 24 اسد (بمطابق 14 اگست بروز بدھ) کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بیرونی قوتوں کی شکست اور اپنی فتح کی تیسری سالگرہ منا رہی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ حکومت پاکستان افغانستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ ٹی ٹی پی ملک میں تمام حملے وہاں سے کرتی ہے؟ آصف درانی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ تمام حملے وہاں سے ہوتے ہیں۔ ’ہاں ہم تو افغان عبوری حکومت کو ان حملوں کے بارے میں، جن میں افغان باشندے شامل ہوں یاد دلاتے ہیں، ان کی وہاں پناہ گاہیں ہیں، جو اسلحہ وہ لے کر پھر رہے ہیں۔ خود افغانستان کے اندر افغان اسلحہ لے کر نہیں چل سکتے لیکن ٹی ٹی پی والے لے کر پھر رہے ہیں تو اس سے شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔‘

آصف درانی افغان عبوری حکومت کے ساتھ تعلقات میں ٹی ٹی پی کی وجہ سے کشیدگی کو تناؤ نہیں مانتے، البتہ کہتے ہیں کہ بہرحال ایک عمل ہے جو ان کے ساتھ جاری ہے۔ ’ہمیں امید ہے اور ان کی جانب سے بھی یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں تو ان پر عمل درآمد ہوگا۔‘

طالبان کی دوسری حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر آصف درانی نے انہیں مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان کے ساتھ ہمارا تاریخی رشتہ ہے اور وہ چل رہا ہے، چاہے کوئی بھی حکومت آجائے۔ اب طالبان کی حکومت آگئی ہے تین سال پورے ہوگئے ہیں۔ انہیں مبارک باد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ وطن میں امن اور یگانگی اور لوگوں کے حقوق کو پورا کریں گے۔‘

حقوق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں چاہے مذہبی یا نسلی اقلیتوں کے حقوق ہوں یا خواتین کے تعلیم اور ملازمت کے۔ ’اس مسئلے پر پاکستان نہ صرف اپنی سطح پر بلکہ او آئی سی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اتفاق رائے کا حصہ ہے۔‘

انہوں نے جنگ سے تباہ حال ہمسایہ ملک میں تین سال سے قیام امن کو پاکستان کے لیے اہم قرار دیا۔ ’وہاں ماضی کے مقابلے میں امن ہے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی ہمارے لیے ایک وجہ تشویش ہے لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھیں گے تو افغانستان کا امن ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ اس حد تک تو اس پر اطمینان ہونا چاہیے۔ بہتری کی گنجائش تاہم ہر وقت رہتی ہے۔‘

 پاکستانی طالبان جیسے مسائل کے حل میں بقول ان کے وقت لگتا ہے۔ ’ٹی ٹی پی ایک غیرریاستی عنصر ہے۔ کوئی بھی ایسا گروہ ہو، اسے طاقت کے زور پر ایجنڈا ڈکٹیٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔

’دوسرا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئین پاکستان کو نہیں مانیں گے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس کی کون سی شق غیر اسلامی ہے۔ انہیں قانون کا احترام اور اپنے جرائم کے لیے جوابدہ ہونا پڑے گا، خاص کر پشاور سکول کے بچوں کو مارنے پر۔ یہ عمل، جب اس طرح کی حرکت ہوتی ہے تو دنیا بھر میں اسی طرح چلتے ہیں۔ تھوڑا وقت لگتا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی سے خود نمٹنا نہیں چاہتی یا اس کی صلاحیت نہیں رکھتی؟ آصف درانی کا کہنا تھا کہ یہ سوال تو بہتر ہوگا کہ ان سے پوچھا جائے۔ ’اگر وہ اپنے آپ کو عبوری حکومت سمجھتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ بااقتدار ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کنٹرول ہے تو یہ کنٹرول ٹی ٹی پی پر بھی اتنا ہی ہونا چاہیے۔‘

کشیدگی حقیقی یا جعلی؟

پاکستان۔ طالبان کشیدگی حقیقی ہے یا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ طالبان کو قبولیت دینے کی ایک کوشش ہے؟ اس حوالے سے آصف درانی کا اصرار تھا کہ انہیں ایسا کچھ نظر نہیں آیا بلکہ الٹا میڈیا نے ہی یہ پھیلایا ہوا ہے کہ پاکستان افغانستان کے درمیان شدید تناؤ ہے اور بہت حالات خراب ہیں۔ ’تاہم اگر آپ دیکھیں تو ٹی ٹی پی کے حملے بہرحال ہو رہے ہیں۔ چینی انجینیئروں پر جو حملہ ہوا اس کی منصوبہ بندی ٹی ٹی پی نے افغانستان میں کی۔ یہ حقائق ہیں ان کا حل تمام سنجیدگی کے ساتھ نکالنا ہے۔

’اس میں صرف پاکستان کی تشویش نہیں ہے بلکہ ازبکستان، تاجکستان، ایران کی بھی ہے اور چین کی بھی ہے۔ آئی ایس کے نے جو حملے روس اور ایران، ازبکستان تاجکستان میں کیے، پاکستان پر بھی ہوئے ہیں، تو یہ مفروضوں کی بنیاد پر نہیں ہیں، یہ ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اصل بات یہ ہے کہ جو بھی افغانستان میں حکومت میں آئے گا، اسے اپنی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان میں ٹی ٹی پی پر قابو پانا شامل ہے۔ ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد تنظیم ہے، داعش ہے اور درجن بھر دوسری تنظیمیں ہیں یہ حقائق ہیں جن کے لیے ہم نے اقدامات کرنا ہیں، خود افغانستان کو اقدامات اٹھانے ہیں۔ وہ کسی جزیرے پر نہیں رہ رہے اور اقتدار میں آنے کے بعد شہد اور دودھ کی نہریں بہیں گی ایسا نہیں ہے۔‘

ٹی ٹی پے کے حل کی کنجی کس کے پاس ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر سٹیٹ کرافٹ کی بات کرنی ہے تو اس معاملے کو پھر اسی طرح لینا ہوگا۔ ’پشتون ولی یا تربور ولی کی طرح لیں گے تو پھر سٹیٹ کرافٹ نہیں چلتا اور اس کی مثال وہ خود ہیں، جنہوں نے ملک کو تباہ کر رکھا ہے۔ افغانستان کے اندر اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی قیام امن کے لیے سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی۔‘

انہوں نے یہ گفتگو ایک ایسے موقعے پر کی ہے، جب طورخم سرحد پر ایک مرتبہ پھر دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان لڑائی ہوئی ہے جو کہ دونوں ممالک کو درپیش چیلنجوں کی عکاسی کرتا ہے۔

پاکستان نواز حکومت

تاریخی طور پر کابل میں پاکستان نواز حکومت ممکن نہیں، کیا یہ بات یہاں اب سمجھ آگئی ہے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ پاکستان نواز حکومت ہونی چاہیے۔ ’افغانستان ایک خودمختار ملک ہے، ہمارے لیے جو پچھلے 45 سال میں ہوا ہے وہ وہاں کی بدامنی تھی۔ پہلے سوویت مداخلت کے بعد مجاہدین کا کشت خون ہوا، پھر 20 سالہ جمہوری دور تھا جو پیراشوٹ جمہوریت تھی، جس میں کرزئی اور اشرف غنی کو لایا گیا جنہوں نے دو لوگوں کا دفتر کبھی نہیں چلایا تھا وہ ڈیموکریٹ بن گئے۔ پھر طالبان آگئے۔

’یہ افغانستان کے عدم استحکام کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ افغانستان کی سیاست پر ایک افسوسناک تبصرہ ہے کہ اس کے رہنماؤں نے اس ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ یہ ایک بہت افسوس ناک بات ہے جس کا ہم پر براہ راست اثر ہوتا ہے۔ ان چیزوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

’اس کا اب کیا کیا جائے۔ طالبان سے پہلے والے رہنما کہاں ہیں وہ باہر بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں البتہ افغانستان کے اندر غربت کا گراف 97 فیصد پر جا چکا ہے۔ اس میں سے 52 فیصد اقوام متحدہ کی امداد پر بیٹھے ہیں اور اگر یہ اقتصادی صورت حال ایسی ہی رہتی ہے تو اس کا ہم پر اثر ہوگا اور ہمیں تشویش ہے کہ لوگ پاکستان کا رخ کریں گے۔‘

طالبان حکومت کتنا چل پائے گی؟

آصف درانی نے کہا کہ وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے۔ ’میں کون ہوتا ہو یہ پیش گوئی کروں؟ یہ مشکل کام ہے۔ سیاست میں تغیر آتا رہتا ہے، اس کا انحصار اس پر ہے کہ وہاں برسراقتدار لوگ اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔‘

کیا افغانستان پھر سے شدت پسندوں کی پراکسی جنگ کا محور بننے لگا ہے؟ اس بارے میں پاکستان کے خصوصی نمائندے نے کہا: ’جب یہ باتیں ہونے لگتی ہیں تو بذات خود ایک الارم کا باعث بنتی ہیں۔ میری اپنے افغان دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ انہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘ 

داعش اور القاعدہ پر افغان حکام کے ساتھ کوئی تعاون ہو رہا ہے؟ اس بارے میں آصف درانی نے تسلیم کیا کہ وہ بھی سنگین خطرہ ہیں۔ ’اس میں تو افغان عبوری حکومت کو آگے آنا ہے کہ ان کے کیا مسائل ہیں اور ہم ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔‘

مغربی سفارت کاروں کو خوف ہے کہ افغانستان ایک بار پھر عسکریت پسندوں کا میدان جنگ بننے جا رہا ہے؟ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ بھی یہی کہہ رہی ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی بڑی تعداد نے خطے میں سلامتی کی صورت حال کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 

تسلیم کرنے کی تمام شرائط پوری کر دیں؟

آصف درانی نے کہا کہ یہ ہر ملک کا انفرادی حق ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرے یا نہ کرے، تاہم پاکستان کسی فیصلے تک پہنچنے میں اپنا وقت لے گا۔

نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک تعلیم ہر مسلمان مرد عورت کا بلکہ ہر انسان کا ایک حق ہے۔ ’جب آپ نے ایک اصول طے کر لیا اور اس کی بین الاقوامی قبولیت ہے تو اس پر مزید بحث کرنا لاحاصل ہوگی۔ پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جب ہم بات کرتے ہیں تو جتنے اہم مسائل ہیں سب پر بات ہوتی ہے۔‘

افغان ویزوں میں سختی؟

آصف درانی نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ افغانوں کو ویزوں کے اجرا میں سختی کی جا رہی ہے۔ ’نہیں ایسا کچھ نہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہم ڈھائی سے تین ہزار ویزے جاری کر رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا ہوگا۔ اس میں شور شرابا زیادہ ہے۔ سرحد پر دیکھ لیں کتنا رش ہوتا ہے۔‘

رجسٹرڈ افغانوں کو نکالنے کا فیصلہ؟

افغان پناہ گزینوں میں سے جو غیرقانونی ہیں انہیں تو واپس بھیجا جا رہا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اعلانات کیے گئے ہیں کہ قانونی طور پر موجود افغانوں کو بھی نکالا جائے گا۔ اس سوال پر کہ کیا فیصلہ اب بھی برقرار ہے؟تو انہوں نے اس کی تفصیلی وضاحت کچھ یوں کی کہ چھ لاکھ 62 ہزار رضاکارانہ طور پر خود چلے گئے، کسی نے زبردستی نہیں کی۔

’لیکن دوسری کیٹگری ہے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی)، جن کی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ ہے۔ ان کے بارے میں دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان 2015 میں معاہدہ ہوا تھا۔ یہ بھی غیرقانونی تھے جن کے کارڈ افغان حکومت نے جاری کیے اور نادرا نے ان کی مدد کی۔ جن کے پاس یہ کارڈ ہیں وہ پاکستان میں ہیں اور پی او آر کارڈ والی تمام سہولتیں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ صرف بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے۔

’پی اور آر معاہدہ ہوا تھا 2002 میں، دونوں ممالک کے علاوہ یو این ایچ سی آر کے درمیان، جس کی مدت 2012 میں ختم ہوچکی ہے۔ یہ تو حکومت پاکستان کی مہربانی ہے کہ اس میں اب تک توسیع کرتی رہتی ہے اب ایک سال کے لیے کیا ہے۔ ان دونوں پی اور آر اور اے سی سی کا سٹیٹس پناہ گزینوں والا نہیں ہے۔ ہمارے تجزیہ کار ان کو مکس کر دیتے ہیں۔ رجسٹرڈ سے مراد یہ لوگ ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اور یو این ایچ سی آر ان  افغانوں کی واپسی کے لیے آگے آئے۔‘

کیا لوگوں کی آمد ورفت رک گئی ہے؟

آصف درانی سے پوچھا گیا کہ کیا تربیت اور بحث مباحثے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت رک گئی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’نہیں کچھ تھنک ٹینکس کر رہے ہیں لیکن یہ آپ افغان عبوری حکومت سے بھی پوچھیں کہ وہ اس میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ ’ان کے اپنے انداز ہیں وہ ایک خودمختار ملک ہے۔ وہ بحث مباحثے کو کتنا فروغ دیتے ہیں۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان