کیا اسلام آباد (دا بیوٹی فل) کے شہریوں کو خبر ہے کہ سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، پاک سیکریٹریٹ، قائد اعظم یونیورسٹی اور ڈپلومیٹک انکلیو کا سیوریج کہاں جاتا ہے؟
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
سپریم کورٹ کے 17 جج ہیں اور 507 لوگوں پر مشتمل عملہ ہے۔ اسی عمارت میں سپریم کورٹ بار بھی ہے۔ وکلا اور سائلین بھی ہر روز بھاری تعداد میں آتے ہیں۔ جہاں اتنی بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں وہاں رفع حاجت کے لیے واش رومز بھی ہوتے ہیں۔ اس افرادی قوت کا سیوریج سیدھا راول جھیل میں جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے ساتھ ہی پارلیمنٹ ہاؤس ہے۔ یہاں عوام کے نمائندوں کی ایک کثیر تعداد قانون سازیاں فرمانے آتی ہے۔ سینیٹ کے 100 قانون ساز اور قومی اسمبلی کے 342 ہیں، عملہ الگ، سکیورٹی سٹاف الگ اور سینکڑوں مہمان الگ۔
ان عوامی نمائندوں کا یہ پارلیمانی سیوریج بھی سیدھا راول جھیل میں جاتا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے ساتھ ایوان صدر ہے، یہاں ریاست کے سربراہ رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ یہ ایوان صدر پورا ایک شہر ہے۔ یہاں ملازمین کا ایک لشکر اترا ہوا ہے۔ سربراہ ریاست کے گھر اور دفتر کا جتنا بھی سیوریج ہے سیدھا راول جھیل میں جاتا ہے۔
آگے پاکستان سیکرٹیریٹ ہے۔ افسر شاہی کا طلسم کدہ، یہاں بھانت بھانت کی وزارتیں ہیں۔ ہر وزارت کا ایک حیرت کدہ آباد ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں۔ یہاں کا سارا سیوریج بھی اپنی سارے کر و فر کے ساتھ سیدھا راول جھیل میں جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کی دوسری جانب وزیر اعظم کا دفتر ہے۔ مغلیہ قلعے کی صورت یہ ایک شاندار عمارت ہے جو دیکھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔ عوامی قوت کے اس مرکز کا سارا سیوریج بھی سیدھا راول جھیل میں جاتا ہے۔
آگے ڈپلومیٹک انکلیو ہے، یہاں بھانت بھانت کے، ہر رنگ، نسل اور قوم کا سفارتی عملہ موجود ہے۔ یہ سارا ڈپلومیٹک سیوریج بھی سیدھا راول جھیل میں جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ’سیدھا راول جھیل جانے‘ کا کیا مطلب ہے۔ مہذب معاشروں میں اگر اپ سٹریم کا سیوریج جھیل میں ڈالنا ہی پڑے تو اسے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر صاف کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا بالادست طبقہ اس تکلف سے بےنیاز ہے۔ یہ اپنا سیوریج بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سیدھا جھیل میں پھینکتا ہے۔
جھیل سے یہ سیوریج واٹر سپلائی کے نام پر راولپنڈی کے شہریوں کے گھروں میں پہنچایا جاتا ہے تا کہ سند رہے کہ لوگوں کی دہلیز پر اگر قانون، جمہوریت، افسر شاہی اور گلوبل ولیج کے ثمرات نہیں بھی پہنچ رہے تو کم از کم ان کا سیوریج تو عوام کی دہلیز تک پہنچ ہی رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو کیا اسلام آباد کے شہریوں کو یہ معلوم ہے کہ یہ سارا سیوریج جس ندی میں ڈال کر راول جھیل میں پھینکا جاتا ہے اس ندی کا کیا نام ہے؟ پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے کہ اس ندی کا نام ’جناح سٹریم‘ ہے اور یہ بابائے قوم سے منسوب ندی تھی جسے ہماری اشرافیہ نے سیوریج کا گندا نالا بنا دیا۔
بنی گالہ، بارہ کہو، قائد اعظم یونیورسٹی اور بری امام کا سارا سیوریج بھی سیدھا راول جھیل میں جاتا ہے۔
جھیل کے اطراف ہوٹل کھلے ہیں اور ان کا سیوریج بھی براہ راست جھیل میں ڈالا جاتا ہے۔ یہ سارا وہ سیوریج ہے جو تحلیل ہوئے بغیر جھیل میں آ گرتا ہے کیونکہ مسافت بہت کم ہے۔
برسات، مارگلہ اور جھیل سے میرا برسوں کا تعلق ہے۔ ان سالوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جھیل پر برستا ساون جا کر نہ دیکھوں۔ آج صبح بھی ایسا ہی ہوا۔ بارش برس رہی تھی اور شہر سو رہا تھا۔ میں اٹھ کر جھیل پر چلا گیا۔
جھیل کا فسوں سوز بن چکا تھا۔ جھیل بھر چکی تھی مگر اس کے کنارے غلاظت سے اٹے پڑے تھے۔ بارش کے تند پانی نے جھیل کی گندگی کناروں پر لا کر ڈھیر کر دی تھی کہ شاید کوئی دیکھے اور شرم کرے۔ باقاعدہ تعفن اٹھ رہا تھا۔ مجھے متلی ہونے لگی۔ میں وہاں سے اٹھ آیا۔
مارگلہ کے جنگل سے اسلام آباد شہر کی طرف 12 ندیاں نکلتی ہیں۔ جنگل میں ان ندیوں کا پانی صاف ہوتا ہے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی ان میں سیوریج ڈال دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی شاید ہی کوئی ایسی سوسائٹی یا سیکٹر ہو جو اپنا سیوریج ٹریٹمنٹ کے بعد ندیوں میں ڈالتا ہو۔
کسی نے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگا رکھا۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سب ندیاں غلاظت سے بھر گئی ہیں۔
ایک وقت تھا، جب پورے چاند کی راتوں میں، ہم دوست چاچے بشیر ملاح کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر گورکھ پان کا قہوہ پی کر اس سے مارگلہ کی کہانیاں سنتے تھے۔ جھیل کا پانی موتیوں کی طرح چمکتا تھا۔ چاند اس پانی میں ڈوب ڈوب جاتا تھا جیسے کوئی پہلی محبت کے منجدھار میں پھنسا ہو۔
سب کچھ بدل چکا۔ اب جھیل کے پانیوں سے تعفن اٹھتا ہے۔ جھیل کنارے اب پھول نہیں کھلتے، یہاں مردہ مچھلیاں ملتی ہیں۔
سوچتا ہوں، جنگل اور جھیل کا نوحہ کس سے کہوں؟ دیوار گریہ کی صورت ایک سپریم کورٹ ہی نظر آتی ہے کہ امید کا ایک روزن اسی نے کھولا ہے۔
راول جھیل کے پانیوں پر سوموٹو کا سوال تیر رہا ہے، اگرعتیقہ اوڈھو کے پرس پر سو موٹو ہو سکتا ہے، اگر چپل کباب میں گوشت کم ہونے پر سو موٹو ہو سکتا ہے اور اگر سموسے کی قیمتوں پر سو موٹو ہو سکتا ہے تو کیا لمحہ لمحہ برباد ہوتی جھیل پر نہیں ہو سکتا؟ کیا یہ مفاد عامہ کا مسئلہ نہیں؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔