بلوچستان: خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی تحریک کی وجہ کیا؟

جبری گمشدگیوں سے متعلق انکوائری کمیشن کی 2024 کی ایک رپورٹ میں 2011 سے اب تک 10 ہزار 88 جبری گمشدگیاں درج کی گئی ہیں۔

25 دسمبر، 2023 کو کراچی میں مظاہرین اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچ کارکنوں پر طاقت کے استعمال کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (عبداللہ زاہد/ ساپن نیوز)

لاپتہ افراد کا عالمی دن، جو ہر سال 30 اگست کو منایا جاتا ہے، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔

یہ علاقے جبری گمشدگیوں اور نشانہ بنا کر قتل کرنے کے مسائل کا شکار ہیں۔ یہاں کے سرگرم کارکن طویل عرصے سے ان زیادتیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور ریاستی مداخلت کا الزام لگا رہے ہیں۔

جبری گمشدگیوں سے متعلق انکوائری کمیشن کی 2024 کی ایک رپورٹ میں 2011 سے اب تک 10 ہزار 88 جبری گمشدگیاں درج کی گئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے چار ہزار 413 کو حل کر لیا گیا جبکہ سکیورٹی ایجنسیوں نے 744 ’پروڈکشن آرڈرز‘ میں سے صرف سات فیصد پر عمل درآمد کیا – جو کہ حراست میں لیے گئے افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا قانونی طریقہ کار ہے۔

خیبر پختونخوا میں 2011 سے اب تک تین ہزار485 افراد مبینہ طور پر لاپتہ ہو چکے ہیں، جن میں سے 1336 مقدمات اس سال کے آخر تک زیر التوا تھے۔

بلوچستان میں اس طرح کے مقدمات کی دوسری سب سے بڑی تعداد 2,752 تھی، جن میں سے 1,990 حل ہوئے اور 2023 کے آخر تک 468 زیر التوا تھے۔

سرگرم تنظیم وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کا الزام ہے کہ حکومتی اعداد و شمار انتہائی کم رپورٹ کیے جاتے ہیں اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے تقریباً آٹھ ہزار واقعات ہیں۔ حکام اس تعداد کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جبر اور حقوق سے انکار بغاوت کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ مذہب کے نام پر بننے والے مسلح عسکریت پسند گروہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

حال ہی میں بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں متعدد پناہ گزین مزدوروں کا قتل ایک مثال ہے۔

اتنی زیادہ تعداد میں افراد کے لاپتہ یا دھمکیوں کا شکار ہونے کے بعد بلوچ خواتین نے اس مہم میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے قدم اٹھایا اور اس کے ساتھ ساتھ اراضی پر قبضے اور وسائل کی کمی کے مسائل کو بھی اجاگر کیا۔

ان خواتین کی زیر قیادت بلوچ یکجہتی کمیٹی کو بی وائی سی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بی وائی سی کی شریک کنوینر 26 سالہ سمیع دین بلوچ 2009 میں اس وقت سرگرم ہوئیں جب ان کے والد کو خضدار کے گھر سے لے جایا گیا تھا۔ اس وقت سے وہ ’لاپتہ‘ ہیں۔

انہوں نے ساپن نیوز کو بتایا کہ انہیں خدشہ تھا کہ آزاد بلوچ خواتین کی قیادت میں نچلی سطح کی یہ تحریک گمنامی میں چلی جائے گی۔

تاہم، اس کو سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے حامیوں، کارکنوں اور طلبا کی حمایت سے تقویت ملی۔

اسلام آباد سے سپن نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اسلام آباد میں اپنے دھرنے کے دوران ’انہوں نے اپنی بات زور و شور سے کہی اور تمام رکاوٹوں کے باوجود یہاں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘

یہ دھرنا دشوار حالات میں ختم ہوا، جس میں کوئی حکومتی مذاکرات نہیں ہوئے، مرکزی دھارے کی جماعتیں خاموش رہیں اور مختلف حلقوں کی جانب سے دباؤ میں اضافہ ہوا۔

اس سال کے شروع میں کوئٹہ سے سپن نیوز سے بات کرتے ہوئے سمیع بلوچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’ہمارا انتخابات سے اعتماد اٹھ گیا ہے کیونکہ ہر حکومت نے ہمارے مسئلے کو سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کیا۔

’اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنی نام نہاد نشستوں اور عہدوں کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں اور ہمارے بارے میں بھول جاتے ہیں۔‘

رواں سال جولائی کے آخر میں بی وائی سی نے بندرگاہ گوادر میں ایک روزہ مظاہرہ کیا تھا جس کے لیے صوبے بھر سے مظاہرین کے قافلے جمع ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ خواتین کی قیادت میں تحریک بلوچستان کے روایتی قدامت پسند اصولوں کے خلاف ہے، ’ہر سٹاپ پر پھولوں اور خوشی سے نعرے لگا کر ہمارا استقبال کیا گیا۔‘

تاہم، ریاست نے آنسو گیس اور پولیس کی کارروائی کے ساتھ جواب دیا۔ گوادر دھرنے سے قبل کم از کم تین افراد جان سے گئے اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

اس کی وجہ سے احتجاج 10 دن تک جاری رہا۔ بی وائی سی نے الزام عائد کیا کہ ان اموات کے پیچھے فرنٹیئر کور کا ہاتھ ہے، جو علاقے میں سکیورٹی کے لیے ذمہ دار نیم فوجی فورس ہے۔

صوبائی حکومت اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتی ہے۔

سندھ انتظامیہ نے گوادر مظاہرے کی حمایت میں کراچی میں ہونے والی ریلی پر کریک ڈاؤن کیا، معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر ندا کرمانی سمیت متعدد مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔

پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے 35 مرد مظاہرین پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا۔ یہ ایک قانونی شق ہے جو عوامی اجتماع پر پابندی عائد کرتی ہے۔

تاہم، قریب ہی کے مذہبی گروہوں کے ایک مظاہرے کو آزادانہ طور پر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی، جس سے ریاستی سلوک میں شدید عدم مساوات کا انکشاف ہوا۔

ڈاکٹر ندا کرمانی نے سپن نیوز کو بتایا کہ ’یہ واضح امتیازی سلوک ہے اور جمہوریت کے تمام اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک جمہوری ریاست ہے جب پوری آبادی کو دبایا جا رہا ہے اور انہیں آئینی حقوق استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے۔‘

جاری احتجاج

اس طرح کے مظاہرے نئے نہیں۔ 10 سال پہلے 2013 میں ’لانگ مارچ‘ کم از کم ایک سال تک جاری رہا۔

سماجی کارکن سبین محمود اس سے وابستہ رہیں، انہیں 2015 میں کراچی میں سیکنڈ فلور کیفے گیلری میں اس مسئلے پر ایک مباحثے کی میزبانی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ بلوچستان کی خواتین اور نوجوان لڑکیاں اس طرح سامنے آئی ہیں۔

گذشتہ نومبر میں بی وائی سی نے ایک بلوچ نوجوان کی حراست میں موت کے خلاف جنوبی بلوچستان کے شہر تربت سے اسلام آباد تک ’لانگ مارچ‘ کیا تھا۔

کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ’انکاؤنٹر‘ میں مارے گئے۔ سینکڑوں افراد نے اسلام آباد تک 1600 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل اور بس کے ذریعے طے کیا تھا۔

اسلام آباد میں مظاہرین کو رات بھر آنسو گیس، لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد پولیس نے مبینہ طور پر ان پر تشدد کیا۔

عدالتی حکم کے باوجود حکام نے مارچ کرنے والوں کو غیرقانونی طور پر کوئٹہ بھیجنے کی کوشش کی۔

مقامی کارکنوں نے اس اقدام کو ناکام بنا دیا اور نیشنل پریس کلب، اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین کے ایک ماہ تک جاری رہے دھرنے کی حمایت کی۔

اس وقت کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے مظاہرین پر عسکریت پسند علیحدگی پسند گروہوں کے ساتھ تعلقات کا الزام عائد کیا تھا۔

انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ مظاہرین دفاع میں ہتھیار اٹھائیں۔ فرحت اللہ بابر نے متنبہ کیا کہ اس طرح کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنا شہری انتشار اور طاقت کے بے دریغ غلط استعمال کو جنم دیتا ہے۔

ریاست نادانستہ طور پر اپنی ساکھ کو سبوتاژ کر دیتی ہے اور ’معذور‘ ہو جاتی ہے۔

اختلاف

ماہرین ادارتی اور ریاستی مبینہ حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو عسکریت پسند گروپوں کو حاصل ہے، یہاں تک کہ کچھ کو سیاسی جماعتوں کے طور پر کام کرنے کی اجازت بھی ہے۔

فرحت اللہ بابر نے وضاحت کی کہ عسکریت پسند گروہوں کو ’تاریخی طور پر ریاستی حمایت حاصل رہی ہے کیونکہ وہ سرحدوں سے باہر طاقت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ریاست تنازعات کو بھڑکانے کے خوف سے خود ایسا نہیں کر سکتی۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’یہ حمایت سلامتی اور خارجہ پالیسی دونوں شعبوں میں سکیورٹی اداروں کے مفادات کو پورا کرتی ہے۔‘

فرحت اللہ بابر مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2008 کے ممبئی بم دھماکوں میں ملوث لشکر طیبہ جیسے گروہ آزاد ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے بلیک لسٹ جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر کو ان حکام نے پناہ دی تھی جن کا جھوٹا دعویٰ تھا کہ وہ لاپتہ ہیں۔‘

تحریک لبیک پاکستان کی افراتفری اور پرتشدد مظاہروں کے باوجود، جس سے سرکاری خزانے کو 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا، انہیں محض ایک نرم سی سزا ملی – ایک خفیہ معاہدے کے تحت ایک مختصر پابندی اٹھا لی گئی جس سے انہیں 2024 میں انتخابات لڑنے کی اجازت مل گئی۔

پاکستان میں 11 ستمبر، 2001 کو امریکہ میں ’نائن الیون‘ حملوں سے پہلے بھی جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں۔

بعد میں سکیورٹی اقدامات اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں امریکہ کے ساتھ تعاون کی وجہ سے اس طرح کی گمشدگیوں میں اضافہ ہوا، جس میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔

سابق صدر پرویز مشرف نے 2008 میں اپنی سوانح حیات ’ان دی لائن آف فائر‘ میں اعتراف کیا تھا کہ پاکستان نے لاکھوں ڈالر کے عوض کئی مبینہ ’دہشت گردوں‘ کو سی آئی اے کے حوالے کیا تھا۔

’حقیقی‘ جمہوریت

ابتدائی طور پر اس طرح کی گمشدگیاں سرحدی علاقوں تک محدود تھیں لیکن سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں یہ دیگر شہری علاقوں میں صحافیوں، کارکنوں، شاعروں اور سیاسی شخصیات تک پھیل گئی۔

اقتدار سے باہر ہونے کے بعد، عمران خان نے اس معاملے سے ہاتھ جھاڑتے ہوئے اپنی انتظامیہ کے دوران گمشدگیوں کا الزام ’اسٹیبلشمنٹ‘ پر لگایا۔

بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ بلوچستان کی صورت حال 1971 جیسے بحران کا باعث بن سکتی ہے جس نے مرکزی طاقت، شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیوں اور غیر ملکیوں کی حد سے تجاوز کی وجہ سے ملک کو تقسیم کر دیا تھا۔ تو پھر یہ سبق کیوں نہیں سیکھا گیا؟

ندا کرمانی اس ناکامی کی وجہ پاکستان میں ایک ’حقیقی‘ جمہوریت کا فقدان قرار دیتی ہیں جہاں برسراقتدار لوگوں کو عوام کی خواہشات کو سننا چاہیے۔

’بلوچستان میں، ریاست ایک ڈکٹیٹر کی طرح برتاؤ کرتی ہے، اور ڈکٹیٹروں کو عام طور پر صرف انقلابات کے ذریعے گرایا جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر کرمانی کا کہنا ہے کہ ریاست طویل عرصے سے بلوچستان کو ایک ’کالونی‘ کے طور پر دیکھتی رہی ہے اور اس کے وسائل کو مساوی فوائد یا نمائندگی کے بغیر نکالتی رہی ہے۔

اسے بلوچستان کے ساتھ اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ’ان کے لیے صورت حال مزید خراب ہوگی، کیونکہ بلوچوں کے لیے یہ شاید ہی بدتر ہوسکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2018 میں سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے پروڈکشن آرڈرز کی کم تعمیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’لاپتہ افراد انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اغوا کاروں کو بے نقاب کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

آف دی ریکارڈ اجلاس میں شرکت کرنے والے فرحت اللہ بابر کے مطابق جب اقبال سے مزید پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ کئی سکیورٹی اہلکار ملوث تھے۔

مستقل ایکٹیوازم کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے۔ جون میں سمیع بلوچ کو ان کی جرات مندانہ وکالت پر ڈبلن میں ایشیا پیسفک ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

انہوں نے بعد میں بتایا، ’یہ ’حقیقی جمہوریت‘ کی علامت ہے، جہاں آپ کے مقصد کو تسلیم کیا جاتا ہے، آپ کو پناہ ملتی ہے، اور آپ کو اپنے من کی بات کہنے کی آزادی ہوتی ہے۔‘

لیکن وہ جمہوری اسلامی ریاست کے طور پر پاکستان کے دعووں پر تنقیدی نقطہ نظر رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں جب آپ لوگوں کو اپنے درد اور تکلیف کے بارے میں بتاتے ہیں تو آپ کو خاموش کرا دیا جاتا ہے، مذمت کی جاتی ہے اور آپ کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔‘

ایک حالیہ اقدام میں حکومت نے پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے سے لاپتہ اپنے پیاروں کے لیے قانونی اور مالی مدد کے طور پر فی خاندان 50 لاکھ روپے یا تقریباً 18 ہزار امریکی ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔

اگرچہ اس سے کچھ مدد مل سکتی ہے، خاص طور پر معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کو لیکن خاندان اصل میں اپنے پیاروں کی بحفاظت واپسی چاہتے ہیں۔

مستقبل کا لائحہ عمل

فرحت اللہ بابر جیسے وکیلوں کا کہنا ہے کہ انصاف کا حصول صرف مالی امداد تک محدود نہیں۔

وہ سپریم کورٹ کے 10 دسمبر، 2013 کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس میں مالاکنڈ حراستی مرکز سے تمام غیر اعلانیہ قیدیوں کی واپسی اور ان کی گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا کہا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر 2017 کے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے تو کیوں نہ 2013 کے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیا جائے تاکہ بات چیت کو آگے بڑھایا جا سکے۔‘

انہوں نے 2020 کے مائرہ ساجد کیس سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کرنے پر بھی زور دیا۔

ان میں ذمہ دار پائے جانے والے عہدے داروں پر جرمانہ عائد کرنا اور متاثرہ خاندانوں کے لیے مستقل مالی مدد کو یقینی بنانا اور پیچھے رہ جانے والے شریک حیات کے لیے مساوی معاوضہ شامل ہے۔

مقامی قانون سازی پر پاکستان کی غیر فعالیت کو بین الاقوامی سطح پر جانچ پڑتال کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کنونشن کی توثیق کرے جو اب تک صرف اس کے ہمسایہ ممالک سری لنکا اور نیپال نے کی ہے۔

مئی 2024 میں ہوئے ابتدائی اجلاس کے دوران شرکا نے علاقائی تعاون کی ضرورت، قومی انسانی حقوق کے اداروں (NHIs) کو مضبوط کرنے، متاثرین کے خاندانوں کی حمایت، اور ان ریاستوں کے خلاف احتسابی اقدامات پر زور دیا جو ایسے مظالم میں ملوث ہیں یا ان کی اجازت دیتی ہیں۔

’مین لینڈ‘ پاکستان میں بہت سے لوگ سیاسی جماعتوں اور اداروں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی ناقص پالیسیوں کو تسلیم کریں اور بات چیت شروع کریں، جس موقف کی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے آزاد گروپ طویل عرصے سے وکالت کر رہے ہیں۔

لاہور میں سینیئر صحافی امتیاز عالم نے جمہوری اور قوم پرست قوتوں پر زور دیا ہے کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسے گروہوں کو یکجا کرتے ہوئے کل جماعتی کانفرنس طلب کریں۔

ان کا وژن ہے کہ ایک متحدہ محاذ جو فوری جنگ بندی، رہائی یا لاپتہ افراد کے لیے منصفانہ ٹرائل، تمام مظالم کے خاتمے اور ایک پائیدار سیاسی حل کا مطالبہ کرتا ہے جو بلوچ عوام کے اپنے مستقبل کی تشکیل کے حقوق کو تسلیم کرے۔

بہت سے لوگ 14تا 16 جنوری 2025 کو جبری گمشدگیوں کے بارے میں ہونے والی عالمی کانگریس کو ایک عالمگیر مسئلے پر عالمی اجتماعی کارروائی کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ساپن نیوز سینڈیکیٹڈ فیچر۔ عبداللہ زاہد جامعہ کراچی میں کمیونیکیشن کے طالب علم ہیں۔ ایکس @AbdullahZahid پر۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین