کے پی، بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 17 عسکریت پسندوں کی موت: فوج

پاکستان فوج نے جمعے کو بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 17 عسکریت پسند مارے گئے۔

16 ستمبر، 2020 کی اس تصویر میں فرنٹیئر کور کے اہلکار بلوچستان میں پاکستان کے سرحدی قصبے قلعہ سیف اللہ میں بکتر بند گاڑی پر کھڑے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان فوج نے جمعے کو بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 17 عسکریت پسند مارے گئے۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے آج جاری کیے جانے والے بیان میں بتایا کہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی میں 12 عسکریت پسند مارے گئے۔

بیان کے مطابق ’28 اور 29 اگست کو پاکستان فوج نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا جہاں شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد 12 عسکریت پسند مارے گئے۔

بیان میں کہا گیا کہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں عسکریت پسندوں اور ان کی تنظیموں کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ بیان میں بتایا گیا کہ اب تک 37 عسکریت پسندوں کو مارا جا چکا ہے جبکہ 14 شدید زخمی ہوئے۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ’آئی بی اوز اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک علاقے میں امن بحال نہیں ہو جاتا۔‘

اس سے قبل پاکستان فوج نے جمعے کو کہا کہ بلوچستان میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں اور حالیہ تین فوجی کارروائیوں میں پانچ عسکریت پسند مارے گئے اور تین زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان فوج نے اپنے بیان میں بتایا کہ یہ آپریشنز عسکریت پسندوں کے رواں ہفتے ان حملوں کے جواب میں شروع کیے گئے ہیں جن میں 50 سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوئیں۔

بیان کے مطابق: ’یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان ظالمانہ کارروائیوں کے تمام مجرموں، سہولت کاروں اور معاونین کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔‘

قبل ازیں اس ہفتے عسکریت پسندوں نے متعدد سول اور فوجی اہداف کو مربوط حملوں میں نشانہ بنایا۔

فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جوابی کارروائی کی جس میں 21 عسکریت پسند جان سے گئے۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حالیہ برسوں میں ہونے والے اپنے خونی ترین حملوں میں سے ایک کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ہے کہ ان حملوں کا مقصد چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو نقصان پہنچانا ہے، جو پاکستان میں سڑک، ریل اور بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے 65 ارب ڈالر سے زیادہ کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ ہے۔

بیجنگ نے بھی ان حملوں کی مذمت کی۔

بلوچستان میں حملے

25 اور 26 اگست کی درمیانی رات صوبہ بلوچستان کے مختلف مقامات پر شدت پسندوں کے حملوں میں درجنوں شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار جان سے گئے تھے، جبکہ پاکستان فوج کی کارروائی میں 21 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان فوج نے پیر کی رات ایک بیان میں بتایا تھا کہ موسیٰ خیل میں شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران 14 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 21 شدت پسندوں کو مار دیا گیا تھا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے میڈیا تو بتایا تھا کہ موسیٰ خیل، قلات، ریلوے لائنوں اور دیگر مقامات پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں 38 افراد جان سے گئے، جن میں سے 23 افراد کو بس سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد قتل کیا گیا۔

سرفراز بگٹی نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ’لوگوں کو بسوں سے اتار کر ان کے اہل خانہ کے سامنے گولیاں ماری گئیں۔‘

اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بلوچستان میں ان پرتشدد پیر واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے قصور واروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

بلوچستان میں حالیہ دنوں میں حملوں کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو  کوئٹہ میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی سربراہی کی جس میں آرمی چیف سمیت وزرا اور اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اختتامی خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ’ہمیں فرق کرنا ہوگا۔ جو دہشت گرد ہیں، جو پاکستان کے دشمن ہیں ان سے مذاکرات کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کا خاتمہ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان بھر میں اور بلوچستان میں ہونے والے ’دہشت گرد‘ واقعے کے تناظر میں اجتماعی کوششوں اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ غیر متزلزل ارادے کے ساتھ ہم نے بلوچستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے اور بلوچستان کی ترقی کے راستے میں تمام روکاوٹیں دور کرنی ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ’جو تمام دہشت گرد تنظیمیں ہیں، خارجی، جو پاکستان کے دشمن ہیں اور جو اندر گھس بیٹھیے ہیں انہوں نے مل کر یہ ناپاک سکیم بنائی اور اس کے نتیجے میں پاکستانی شہید ہوئے جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔‘

بلوچستان میں افسران کی تعیناتی کی پالیسی

وزیر اعظم نے اجلاس میں کہا کہ بلوچستان میں افسران کی تعیناتی سے متعلق پالیسی بنائی گئی ہے جس پر وفاقی اور صوبائی حکومت کو عمل کرنا ہوگا۔

’بلوچستان میں قابل اور ہونہار افسران کی تعیناتی ضروری ہے۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ ’بدقسمتی سے تاثر ہے کہ سول افسران بلوچستان آنے سے کتراتے ہیں۔‘

وزیراعظم نے کہا کہ 48 کامن ٹریننگ پروگرام کے افسران کی بلوچستان میں تعیناتی کی جائے گی۔

’48 کامن ٹریننگ پروگرام کے آدھے افسران کو فی الفور ایک سال کے لیے تعینات کیا جائے گا۔ 48 کامن ٹریننگ پروگرام کے دیگر افسران کو چھ ماہ بعد ایک سال کے لیے تعینات کیا جائے گا۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ نیشنل فنانس ایوارڈ (این ایف سی) میں بلوچستان کا حصہ دگنا کر دیا گیا ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان