مجھے 2006 میں پہلی مرتبہ نواب اکبر خان بگٹی سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ وہ ان سے میری پہلی اور بدقسمتی سے آخری ہی ملاقات تھی۔
اس ملاقات کا موقع بس یوں ہی غیر ارادی طور پر بنا تھا۔ اس وقت حکمراں جماعت مسلم لیگ ق کے صدر جوہدری شجاعت حسین اپنی پارٹی کا ایک پارلیمانی وفد انڈیا لے جا رہے تھے جس میں ہم کچھ صحافی بھی شامل تھے۔
دہلی سے واپسی میں لاہور کے ایئرپورٹ پر چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین سید نے ڈیرہ بگٹی کے سفر کا ذکر کیا۔ بلوچستان میں حالات مخدوش تھے اور یہ لوگ نواب اکبر بگٹی سے ملنے جا رہے تھے۔ چونکہ میری کبھی بگٹی صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اس لیے میں نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کی۔
اگلی صبح ایک چھوٹے جہاز میں چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید اور مونس الٰہی کے ہمراہ ہم ڈیرہ بگٹی کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں جہاز سے ہم ایک ہیلی کاپٹر میں منتقل ہوئے۔
میری اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل فرنٹیئر کور (ایف سی) سے پاکستان اور خاص کر بلوچستان کے حالات پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ حالات یقینی طور پر نہایت پیچیدہ تھے۔ معاملہ ایک خاتون ڈاکٹر سے زیادتی کا تھا جو بگڑتا ہوا بہت تناؤ اور کشیدگی کی طرف چلا گیا۔ اس وقت کی غیر سیاسی حکومت کی سوچ کا اور فیصلہ سازی کا بھی حالات پر سایہ منڈلا رہا تھا۔
ڈیرہ بگٹی میں نواب صاحب نے شجاعت حسین اور مشاہد حسین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے فارمولے پر بات کی۔ ایف سی کی چوکیوں اور پوسٹیں کم کرنے کا فیصلہ ہوا اور ساتھ ہی بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ لیکن واپسی پر اسلام آباد اور راولپنڈی کی سوچ کے مطابق ڈیرہ بگٹی کا فارمولا شاید ریاست کی کمزوری کا معاہدہ تھا۔ بعد کے بگڑتے ہوئے معاملات کی تاریخ گواہ ہے۔
حالات کو سلجھانے کی خواہش تو پاکستان میں ہر دور میں پائی گئی۔ سوال البتہ ہمیشہ بگڑے ہوئے حالات میں ابھرتے ہوئے معاملات اور مشکلات کو حقیقت پسندانہ طریقے سے سمجھنے اور پھر سلجھانے کے لیے حکومت کی حکمت اور فراست کا ہوتا ہے۔ اس فہم کے بغیر نہ ریاستی طاقت اور نہ سیاسی جوڑ توڑ کسی بھی ملک کو سنبھال پاتے ہیں نہ ہی اس کے عوام کو۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ملک کو اس منطق سے یقیناً استثنا حاصل نہیں رہا۔ آج کے بلوچستان کے حالات سے زیادہ اور کیا اس حقیقت کی عکاسی کر سکتا ہے۔ مسئلہ نیتوں کا نہیں، سمجھ اور اہلیت کا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بات پھر بہت لمبی ہو جائے گی، شاید یہی کہنا مناسب ہو کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ایک نئی اور ابھرتی ہوئی قوم، ریاست اور سیاست کے معروضی حالات کو سمجھنا، زمینی حقائق اور ریاستی و حکومتی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے مربوط حکمت عملی بنانا، اس پر عمل کرنا اور اس میں نئے چیلنجز، اندرونی اور خارجی - کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتری لانا، ایک ہمالیہ سے کہیں زیادہ اونچی ذمہ داری تھی۔
پاکستان کا قیام ایک پختہ پرجوش اور منطقی بنیاد پر لاجواب اور عظیم رہنما کی قیادت میں عمل میں آیا۔ پر اگر پاکستان کے حالات سے پوری واقفیت رکھنی ہے تو یہ جاننا لازمی ہے کہ پاکستان کس بے سروسامانی کی حالت میں وجود میں آیا، جہاں ایک طرف ایک نئی ریاست اور تشخص کی بنیاد ویسے بھی نہایت مشکل سیاسی، اقتصادی، مالی، سماجی اور نظریاتی حالات میں ڈالنی تھی، لیکن قائد کے جانے کے بعد کے حالات کی سنگینی بڑھتی چلی گئی۔
خارجی مشکلات نے اندرونی حالات میں اور بھی بگاڑ پیدا کیا۔ یہ آزادی کے وقت کے منفی حالات والا پاکستان نہ تھا۔ اس کا نقصان یقینا سب سے زیادہ بلوچستان کے ان لوگوں کو ہر طرح سے ہوا اور ہوتا رہا ہے۔
بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں امن چین اور سدھار لانے کے لیے ان کو اپنے آئینی یعنی جائز حقوق دینا ہوں گے۔ ریاست سے اعتماد کا رشتہ لازم ہے۔ اعتماد یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہی ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے کل سے سیکھنا ہے نہ کہ ماضی کی غلطیوں میں ڈوب جانا ہے۔
بلوچستان میں تین فوری اقدامات لازم ہیں: جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ، حقیقی سیاسی نمائندگی، اور بلوچستان کے ناراض شہریوں کے ساتھ کی ڈائیلاگ کی شروعات۔
جنوبی افریقہ کے مثالی رہنما نیلسن منڈیلا نے عملاً دکھایا کہ کیسے بدترین حالات میں انفرادی اور اجتماعی بھلائی اور جیت ردعمل اور نفرتوں کے بھنور سے بچ کر ہی ممکن ہے۔ یہی ایک کامیاب قیادت کا تقاضا ہے، خاص کر وہ قیادت جس کو اپنے ہی لوگوں کا ناکہ خارجی دشمنوں کا سامنا ہو۔
اب کون کتنا اور کس کا قصور وار ہے، اس سمت بڑھیے اور جھگڑے، نفرتیں اور غیر یقینی کے معاملات کو بس طول مت دیجیے۔ نہ بلوچستان کے لوگوں کی تکالیف اور شکایات کم ہوں گی اور نہ ریاست ملک میں استحکام پیدا کر پائے گی۔ صحیح سمت میں بڑھنے اور مثبت عوام دوست نتائج حاصل کرنے کے لیے اور آئینی طرز کو اپنانے کے لیے بلوچستان میں تین فوری اقدامات لازم ہیں۔ نمبر ایک جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ، دو حقیقی سیاسی نمائندگی اور تین بلوچستان کے ناراض شہریوں کے ساتھ کی ڈائیلاگ کی شروعات۔
بس یہی طریقہ ایک طریقہ ہے بلوچستان میں بگاڑ کو ختم کرنے کا اور اسی طریقے سے بلوچستان کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔
سکیورٹی کے معاملات بھی نہایت اہم ہیں۔ دہشت گردی کو روکنا، پاکستان کا خارجی درینہ دشمن قوتوں سے نمٹنا، اس کے لیے پاکستان کو اپنی انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کی مہارت کو بڑھانا ہے۔ نیشنل پلان آف ایکشن کو متحرک کرنا ہے پر ساتھ ہی بلوچستان کو سیاسی طور پر حقیقی جمہوریت کی ڈگر پہ ڈالنا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
نسیم زہرہ سینیئر صحافی، مصنفہ اور ٹیلی ویژن اینکر ہیں۔