26 اگست کا دن بلوچستان میں بہت خون ریز رہا، جب نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقعے پر کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے حملوں میں 54 افراد جان سے چلے گئے۔
بی ایل اے نے ان حملوں کو ’آپریشن ہیروف‘ کا نام دیا۔ صوبے میں حالیہ سالوں میں سکیورٹی کی صورت حال خراب تر ہوئی ہے۔
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی 2023 کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال صوبے کے 19 اضلاع میں بی ایل اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے 78 حملوں میں 86 لوگ مارے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سکیورٹی اداروں سے تھا۔
لیکن اس سال پہلے آٹھ ماہ کے دوران 117 حملوں میں 149 افراد مارے جا چکے ہیں۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ یعنی 62 فیصد حملے بی ایل اے نے کیے، جن میں 125 لوگ مارے گئے۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2000 کے بعد سے صوبے میں دہشت گردی کے 3225 واقعات ہو چکے ہیں، جن میں 9491 لوگوں نے جان گنوائی۔ یہ اموات علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ طالبان اور فرقہ وارانہ گروہوں کی کارروائیوں کا بھی نتیجہ ہیں۔
27 اگست، 2024 تک بلوچستان میں ہونے والے حملوں کی تفصیلات (بشکریہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز)
بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندی کی تحریک میں کون کون سی کالعدم تنظیمیں شامل ہیں؟ یہ کیسے کام کرتی ہیں اور کن کن علاقوں میں اپنا دائرہ کار پھیلائے ہوئے ہیں۔
اس کا جائزہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ Pakistan’s Evolving Militant Landscape میں لیا، جس کے مطابق صوبے میں آٹھ عسکری گروہ برسر پیکار ہیں لیکن بی ایل اے اور بی ایل ایف سب سے بڑے گروہ کے طور پر موجود ہیں۔
بلوچستان لبریشن آرمی
کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروہ بی ایل اے پاکستان، ایران اور افغانستان کے بلوچ علاقوں پر مشتمل ایک الگ ریاست کے لیے سرگرم ہے۔ اس کے دو دھڑے ہیں، ایک کی قیادت حرب یار مری جب کہ دوسرے کی بشیر زیب کے پاس ہے۔
بشیر زیب گروہ بلوچ راجی اجوئی سانگڑ (براس) نامی چار عسکری تنظیموں پر مشتمل اتحاد کا بھی حصہ ہے۔ بشیر زیب بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کے بھی سربراہ ہیں، جسے اسلم بلوچ نے منظم کیا تھا۔
حمال بلوچ، بشیر زیب کے پیش رو کے طور پر متحرک ہیں۔ اس گروہ کے دوسرے اہم کمانڈروں میں نور بخش مینگل، رحیم گل اور آغا شیر دل شامل ہیں۔
بزدار خان لاجسٹک یونٹ کے سربراہ ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کے تین ذیلی یونٹ ہیں۔ ایک آپریشنل، دوسرا لاجسٹک اور تیسرا انٹیلی جنس۔
جیوند بلوچ تنظیم کے ترجمان ہیں۔ بی ایل اے کی زیادہ تر کارروائیوں کا محور بلوچ آبادی کے علاقے ہیں لیکن یہ گروہ کراچی کے کچھ علاقوں میں بھی سرگرم ہے۔
بی ایل اے مری گروپ اسفال گئی، مستونگ کے اضلاع کے ساتھ ساتھ مچھ، ہرنائی، نصیر آباد، جعفر آباد، لورا لائی، کوئٹہ اور آواران کے اضلاع میں سرگرم ہے۔
دوسری جانب بی ایل اے زیب گروپ بلوچستان کی ساحلی پٹی اور مشرقی بلوچستان پر اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہے۔
گذشتہ دو سالوں کے دوران بی ایل اے کی کارروائیوں کا دائرہ کار بلوچستان کے 22 اضلاع تک پھیل گیا ہے۔
تاہم یہ گروہ بولان، ہرنائی، قلات، کیچ، خضدار، پنجگور، کوئٹہ، سبی، نوشکی اور مستونگ میں تواتر کے ساتھ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔
بی ایل اے کا نشانہ سکیورٹی ادارے، بڑے ترقیاتی منصوبے اور ان میں کام کرنے والے غیر بلوچ ملازم بالخصوص چینی اور پنجابی ہیں۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ:
اس گروہ کو نوجوان قوم پرست رہنما ڈکٹر اللہ نذر، غلام محمد بلوچ اور واحد قمبر نے 2003 میں قائم کیا تھا۔
شروع میں اس نے بی ایل اے سے تربیت اور مدد حاصل کی۔ سیاسی طور پر یہ گروہ بلوچستان نیشنل موومنٹ سے تعلق رکھتا ہے جس کے زیادہ طور لوگ پاکستان سے باہر مغربی ممالک میں قیام پزیر ہیں۔
گروہ کو بی این ایم اور بی ایس او آزاد کی بھی مدد حاصل ہے۔ یہ گروہ قوم پرست بلوچوں کے متوسط طبقے کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر کا حمال حیدر بلوچ کے ساتھ بھی قریبی تعلق ہے جو عالمی سطح پر متحرک ہیں۔
اللہ نذر ایک دور میں ڈاکٹر مالک بلوچ، جو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، کی نیشنل پارٹی سے بھی وابستہ رہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر کے بارے میں خیال ہے کہ ان کے پاکستان ایران سرحد کے دونوں اطراف ٹھکانے ہیں۔ بعض مبصرین کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں ہیں۔
پاکستان میں بی ایل ایف کے دیگر اہم رہنماؤں میں اختر ندیم اور خلیل بلوچ شامل ہیں۔ گورام بلوچ اس گروپ کے ترجمان ہیں۔
ایران کی سرحد سے متصل ضلع کیچ کی وادی نما تحصیل بلیدہ اس گروپ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہ گروہ مشکیل (خاران )، آواران ، پنجگور کے اضلاع کے ساتھ، بسیمہ، واشک، جیوانی اور پسنی کے ساحلی علاقوں میں بھی متحرک ہے۔
گذشتہ دو سالوں میں اس گروہ نے پانچ جنوبی اضلاع کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا جن میں گوادر، کیچ، لسبیلہ، پنجگور اور آواران شامل ہیں۔
چین اور سی پیک کے مخالف یہ گروہ کوئٹہ اور کراچی کے کچھ حملوں میں بھی ملوث پایا گیا۔
براس (بلوچ راجی اجوئی سانگڑ):
بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کا یہ اتحاد 2018 میں قائم ہوا تھا جس میں بی ایل اے، بی ایل ایف، بلوچ ریپبلکن گارڈز اور بی این اے شامل تھے۔
اس کا مقصد پاکستان میں چینی منصوبوں کو نشانہ بنانا تھا۔ اگلے سالوں میں یہ اتحاد بڑے خطرے کے طور پر ابھرا۔ تاہم بی این اے کے امام گلزار کی گرفتاری کے بعد اس اتحاد کو دھچکا پہنچا۔
اس اتحاد نے 2024 کی انتخابی مہم کو بھی نشانہ بنایا تھا اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے اعدادو شمار کے مطابق جنوری اور فروری 2024 کے دو ماہ کے دوران اس نے 18 حملوں میں سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔
بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے):
بی آر اے کو بگٹی ملیشیا بھی کہا جاتا ہے جو نواب اکبر بگٹی کے قبیلے پر مشتمل ہے۔
گذشتہ پانچ سالوں میں اس نے بلوچستان کے دیگر اضلاع تک اپنا نیٹ ورک پھیلا کر نوجوانوں کو بھرتی کیا، جن میں گوادر اور کیچ کے اضلاع سرفہرست ہیں۔
اس کے جنگجوؤں کو بی ایل ایف کی مدد حاصل ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کا خیال ہے کہ بلوچستان ریپبلکن آرمی، بلوچ ریپبلکن پارٹی کا عسکری ونگ ہے اور براہمداغ بگٹی اس گروہ کو چلا رہے ہیں۔
یونائٹیڈ بلوچ آرمی:
یہ بلوچستان لبریشن آرمی سے الگ ہونے والا دھڑا ہے۔ عبدالنبی بنگل زئی نامی ایک سخت گیر بلوچ کمانڈر جنھیں شہریوں اور بلوچ تاجروں کو لوٹنے کے الزام پر بی ایل اے سے نکال دیا گیا تھا، اس خطرناک گروپ کے سرغنہ ہیں۔
عام طور پر بلوچ باغی گروہ شہریوں بالخصوص بلوچوں پر حملے نہیں کرتے مگر بنگل زئی کا خیال ہے کہ جو بلوچ علیحدگی کے حامی نہیں وہ بھی سزا کے حق دار ہیں۔
بنگل زئی نے بعد ازاں بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اس گروہ کے دوسرے حصے کے رہنما مہران مری ہیں جو لندن میں قیام پزیر ہیں اور پاکستان کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس گروہ میں زیادہ تر مری قبیلے کے جنگجو شامل ہیں، مگر ساراوان اور بولان کے جنگجو بھی اس کا حصہ ہیں۔
یہ گروہ چاغی، نوشکی، بولان، لسبیلہ، بسیمہ اور واشک کے اضلاع میں سرگرم ہے۔
بلوچ ریپبلکن گارڈز:
بختیار ڈومکی نے 2012 میں کراچی میں اپنی بیوی اور بیٹی کے قتل کے بعد یہ گروہ قائم کیا تھا۔
ڈومکی کی شادی براہمداغ بگٹی کی بہن سے ہوئی تھی۔ یہ گروہ اب سرگرم نہیں رہا لیکن نصیر آباد کے ضلعے میں اس کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔
2023 میں اس گروہ نے دو حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، جن میں سے ایک کوئٹہ اور دوسرا صحبت پور میں کیا گیا۔ یہ گروہ بھی براس اتحاد کا حصہ ہے۔
لشکرِ بلوچستان:
2008 میں وجود میں آنے والے اس گروہ کا ہدف زیادہ تر مکران ڈویژن تھا۔ تاہم حالیہ سالوں میں یہ غیر فعال نظر آتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس میں مینگل قبیلہ اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے حامی شامل ہیں۔
تاہم بی این پی مینگل گروپ خود کو عسکری مزاحمت کا حصہ نہیں سمجھتا۔ لشکر بلوچستان کے سربراہ میر جاوید مینگل ہیں جو بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کے بڑے بھائی ہیں۔
میر جاوید مینگل لندن اور دبئی میں قیام پزیر ہیں اور وہ لشکر بلوچستان سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکاری ہیں۔
جاوید مینگل اور ان کے بیٹے میر نورالدین مینگل عالمی فورمز پر بلوچستان کا کیس پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
میر نورالدین مینگل UNPO (Unrepresented Nations and Peoples Organizations) میں فعال ہیں کو جو امریکہ میں بلوچستان کے مسئلے پر تواتر کے ساتھ تقریبات کرتے رہتے ہیں۔ لشکر بلوچستان لسبیلہ، مکران، خضدار اور پنجگور میں متحرک ہے۔
بلوچ نیشنل آرمی:
بی این اے کو حال ہی میں اس کے دو اہم رہنماؤں کی جانب سے پرتشدد کارروائیاں چھوڑنے کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
یہ گروہ 2022 میں دو باغی بلوچ گروہوں کے ادغام کی وجہ سے بنا تھا جن میں یو بی اے، بی آر اے اور بی این اے سے الگ ہونے والے عسکریت پسند شامل تھے۔
اس کے قیام کا مقصد بلوچ مزاحمتی تحریک کو بڑھانا تھا۔ تاہم اس کے رہنما گلزار امام نے، جو شامبے کے نام سے بھی معروف ہیں، 23 مئی، 2023 کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں ماضی میں اپنی عسکری کارروائیوں پر پشیمانی ظاہر کی تھی۔
اس پریس کانفرنس کو انٹیلی جنس اداروں کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد دسمبر میں بی این اے کے کمانڈر اور ترجمان سرفرازاحمد بنگل زئی نے، جنھیں مرید بلوچ کے نام سے جانا جاتا تھا، اپنے 70 ساتھیوں کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے تھے۔