ریاستیں عموماً جب ماضی کی آغوش سے نکل کر مستقبل کی طرف بڑھتی ہیں تو ان کے سماجی، معاشی، سیاسی اور اقتصادی اشاریے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور معاشرہ ماضی کی نسبت آج زیادہ زوال پذیری کا شکار ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا تھا لیکن سرد جنگ کے حالات نے پاکستان کو ایسے مواقع فراہم کیے، جن کی وجہ سے اس کو عالمی امداد ملی اور اس کے معاشی اشاریے بہتر ہونا شروع ہوئے۔
60 کی دہائی میں پاکستان ان ممالک میں شمار کیا جاتا تھا، جن کی معاشی ترقی نسبتاً بہتر تھی۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھی ملک کو کئی مسائل کا سامنا رہا۔
تاہم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بڑے پیمانے پہ حکومتی سرمایہ کاری ہوئی، جس نے معیشت کو کافی حد تک سنبھال کر رکھا۔
اس کے علاوہ محنت کشوں کے لیے سرکاری اصلاحات نے عام آدمی کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ مشرق وسطی میں روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے بھی معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے خوشحالی کی راہیں کھلیں۔
تاہم جنرل ضیا کا سیاہ دور جہاں تمام شعبوں کے لیے مصیبت کے پہاڑ لے کر آیا، وہیں اس نے معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ قومی اداروں کی ڈی نیشنلائزیشن اسی دور میں شروع ہوئی، جو آگے جا کے نجکاری پر منتج ہوئی۔
افغان جنگ اور منشیات کے کالے دھن سے ریئل سٹیٹ کو فروغ ملا اور صنعتوں کا زوال شروع ہوا۔
سیاست پر پابندی کی وجہ سے فرقہ واریت اور تنگ نظر قوم پرستی بڑھی، جس نے معاشرتی شیرازہ بندی کا راستہ ہموار کیا۔
اب پاکستان 60 یا 70 کی دہائی میں ہونے والی معاشی ترقی کے صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے گو کہ اس کے بعد کے عشروں میں بھی کچھ معاشی ترقی ہوئی لیکن اس کی بنیادی وجہ بیرون ملک سے آنے والا قرضہ تھا جو اب ہمارے گلے میں غلامی کا طوق بن کر سجا ہوا ہے۔
بالکل اسی طرح ماضی میں سیاسی طور پر نظریاتی رہنما ہوا کرتے تھے، جن سے لاکھ اختلافات کیے جائیں لیکن ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگائے جا سکتے۔
میاں افتخار الدین، مولانا بھاشانی، ولی خان، غوث بخش بزنجو، جی ایم سید، محمود الحق عثمانی، ڈاکٹر مبشر حسن، سردار عطا اللہ مینگل، تسنیم گردیزی، ذوالفقار علی بھٹو، پروفیسر غفور احمد، حبیب جالب، خیر بخش مری، بابائے سوشلزم شیخ رشید، مختار رانا، مولانا شاہ احمد نورانی، معراج محمد خان، فتحیاب علی خان سمیت کئی ایسے رہنما تھے، جن پر کرپشن کا کوئی بڑا داغ نہیں۔
سماج میں مجموعی طور پر پڑھنے لکھنے کا بھی رجحان تھا اور یہ بات عام تھی کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین ترقی پسند لٹریچر کا مطالعہ کرتے تھے اور اشتراکی خیالات رکھنے والے کارکنان مولانا مودودی کے تفہیم القران یا ترجمان القران کو شوق سے پڑھتے تھے جبکہ عالمی اسلامی تحریکوں کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔
سماجی طور پر معاشرہ نسبتاً کھلے ذہن کا تھا اور خواتین پر کم تعلیم ہونے کے باوجود بھی بے جا پابندیاں نہیں تھیں۔
60 اور 70 کی دہائی میں بنائی جانے والی فلمیں اس بات کی عکاس ہیں کہ پاکستان میں تخلیقی صلاحیتوں کی بھی کمی نہیں تھی اور پاکستانی فلموں اور ڈراموں کا معیار دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی فلم یا ڈرامہ انڈسٹری سے کم نہیں تھا۔
ادب بھی نسیم حجازی کے حملے سے پہلے بہت پھل پھول رہا تھا۔ ایک طرف انجمن ترقی پسند تحریک تھی اور دوسری طرف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شعرا بھی تھے۔
اس شعبے میں بھی پاکستان نے ایسے جوہر پیدا کیے، جن کی صلاحیتوں کو نہ صرف علاقائی سطح پر پذیرائی ملی بلکہ ان کی عالمی سطح پر بھی ایک پہچان تھی۔
فیض احمد فیض نہ صرف پاکستان میں جانے جاتے تھے بلکہ ایڈورڈ سعید سمیت ترقی پذیر ممالک کے کئی دانش ور بھی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے۔
اشفاق احمد کی رجعت پسندی سے پہلے منٹو اور عصمت چغتائی جیسے تخلقی دماغ ہمارے فکری ذوق کی آبیاری کرتے تھے۔
معاشرے میں لیفٹ اور رائٹ کی تقسیم کے باوجود بھی عدم رواداری کی وہ سطح نہیں تھی جو آج موجود ہے۔
اس دور کے بہت سارے مولوی حضرات فلسفہ پڑھنے والے کسی ترقی پسند نوجوان کی بات کو یہ کہہ کر ٹال دیا کرتے تھے کہ اس نوجوان نے کچھ زیادہ ہی پڑھ لیا ہے اور وہ اس سے ہضم نہیں ہو رہا۔
گو کہ چند تنگ نظر مولوی اس وقت بھی موجود تھے لیکن بات بات پر کفر کے فتوے نہیں لگائے جاتے تھے۔ کراچی، لاہور سمیت کئی شہری علاقوں میں آبادیوں کی تقسیم فرقوں پہ نہیں ہوتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترقی پسند تحریک کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں مختلف مذاہب، فرقوں اور قومیتوں کے لوگ ایک ساتھ کام کرتے تھے۔
اقلیت اور اکثریت کا بہت زیادہ شور نہیں تھا اور یہ دیکھا گیا کہ ترقی پسند تحریکوں میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی بہت عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
سوبو گیان چندانی، ایرک سپرین سمیت کئی ترقی پسند رہنما معاشرے کے تمام طبقات میں یکساں قابل قبول اور قابل احترام ہوا کرتے تھے۔
لیکن آج لگتا ہے کہ پاکستان ہر حوالے سے زوال پذیری کا شکار ہو رہا ہے۔ معاشی نموسکڑتی جا رہی ہے۔ کاروبار میں سٹے بازی کا رجحان عام ہو گیا ہے۔
ٹیکس چوری ہمارا قومی کلچر بنتا جا رہا ہے۔ سرکاری ادارے برائے نیلام ہیں۔ چھوٹے صوبوں کے مسائل کو طاقت سے حل کرنے کی روش پروان چڑھ رہی ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان کو جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کو ہراساں کیا جانا معمول ہے۔
مذہبی گروہ اتنے متشدد ہو گئے ہیں کہ اب چھوٹی چھوٹی بات پر کفر کے فتوے لگا دیے جاتے ہیں۔
ادبی اور تخلیقی افق پر بھی زوال پذیدی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ انتہائی دقیانوسی خیالات کے مالک ڈرامہ نگار، کرکٹ کے کھلاڑی اور مذہبی یوٹیوبرز اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
فن شاعری میں ناقدین کے مطابق جون ایلیا کے بعد انتہائی اعلی معیار کا کوئی بڑا شاعر نظر نہیں آتا، جس کے لب ولہجے میں نہ صرف فکر انگیزی کے سوتے پھوٹتے ہوں بلکہ زبان و بیان میں تاریخ، فلسفہ، جمالیات اور مابعدالطبعیات کے دقیق مسائل پر گفتگو بھی پنہاں ہو۔
کیا اس زوال پذیدی سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ ہم بحیثیت قوم اپنے لیے کس طرح کا راستہ منتخب کرتے ہیں۔
اگر ہم مذہبی رواداری، معاشی ترقی، انسانی حقوق اور مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو یقینا اس زوال پذیری کو شکست دی جا سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔