دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ ہیں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے گذشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کی جن میں سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں موسیٰ خیل میں 23 بے گناہ شہریوں کا قتل بھی شامل ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر 4 ستمبر 2024 کو واشنگٹن میں بریفنگ سے خطاب کر رہے ہیں (امریکی محکمہ خارجہ)

امریکہ نے بلوچستان میں گذشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

بدھ کو واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے جب پوچھا گیا کہ ’ہم نے سنا ہے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ملاقات کے دوران پاکستان نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو شکست دینے کے لیے امریکہ سے مدد مانگی تھی۔‘

اس کے جواب میں تبصرہ کرتے ہوئے امریکی ترجمان نے کہا کہ’علاقائی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ مفادات ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی عوام پرتشدد انتہا پسند دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ہمارے دل بلوچستان میں مرنے والے افراد کے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ ہیں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے گذشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کی جن میں سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں موسیٰ خیل میں 23 بے گناہ شہریوں کا قتل بھی شامل ہے۔

25 اور 26 اگست کی درمیانی رات صوبہ بلوچستان کے مختلف مقامات پر شدت پسندوں کے حملوں میں درجنوں شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار جان سے گئے تھے، جبکہ پاکستان فوج کی کارروائی میں 21 عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

پاکستانی فوج نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ موسیٰ خیل میں شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران 14 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 21 شدت پسندوں کو مار دیا گیا تھا۔

بلوچستان کے ضلع موسٰی خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر ٹرکوں اور مسافر بسوں سے اتارکر شناخت کے بعد 23 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا۔

ان پر تشدد واقعات کے دوران 21 گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا تھا جن میں ٹرک اور دیگر گاڑیاں شامل تھیں۔

پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے متعلق بھی سوال کیا گیا، جس کے جواب میں میتھیو ملر نے کہا: ’ہم ایران کے خلاف اپنی پابندیوں کا نفاذ جاری رکھیں گے اور یقیناً ہم ایران کے ساتھ کاروباری معاہدوں پر غور کرنے والے ہر کسی کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان معاہدوں کے ممکنہ مضمرات سے آگاہ رہے۔‘

جب امریکی ترجمان سے کہا گیا کہ اس بات پر کوئی تبصرہ کریں کہ ’ایران نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے یا ممکنہ طور پر 18 ارب ڈالر کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ توانائی کی ملکی ضروریات کے باوجود پاکستان پر امریکہ کی جانب سے یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ اس منصوبے پر پیش رفت نہ کرے یا پابندیوں کا سامنا کرے، لیکن پاکستان اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے پابندیوں میں چھوٹ کا مطالبہ کر رہا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں میتھیو ملر نے کہا کہ ’توانائی کی قلت پر قابو پانے میں مدد کرنا امریکہ کی ترجیح ہے اور ہم حکومت پاکستان کے ساتھ توانائی کے تحفظ پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

21 مارچ 2024 کو پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے بارہا پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر اپنے عزم کی تجدید کی ہے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر فیصلہ حکومت پاکستان کا اپنا فیصلہ ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ’یہ پائپ لائن پاکستان اپنے علاقے میں تعمیر کر رہا ہے، اس وقت پہلا نکتہ گیس پائپ لائن کی تعمیر ہے، ہم اس تعمیر کے لیے پر عزم ہیں۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ کے اس بیان کے چند دن بعد امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ امریکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کرتا اور ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کی زد میں آنے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔

اس منصوبے کا بنیادی مقصد درحقیقت ایران سے پاکستان اور ہمسایہ ملک انڈیا دونوں کو گیس کی فراہمی تھا لیکن ایران پر لگائی گئی بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ طویل عرصے سے تک تعطل کا شکار ہے۔

امریکہ نے شروع سے ہی اس کی مخالفت کی تھی اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر پاکستان نے اس پر عمل کیا تو اسے مالی جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس منصوبے کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کوئی فریق مقررہ ڈیڈ لائن پر اپنے حصے کی پائپ لائن کی تعمیر مکمل نہیں کرتا تو اسے مالی جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 23 فروری کو پاکستان کی نگران کابینہ توانائی کمیٹی نے ایرانی بارڈر سے گوادر تک 81 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی تھی۔

حال ہی میں خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ایران گیس پائپ لائن پر پاکستان کی جانب سے پیش رفت نہ ہونے پر پیرس میں عالمی ثالثی عدالت میں جانے کا ارادہ رکھتا ہے جہاں وہ پاکستان پر 18 ارب ڈالر کے ہرجانے کا دعوی کرے گا۔

تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے گیس پائپ لائن کے بارے میں ایران کے نوٹس سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ معاملہ وزارتِ پیٹرولیم سے متعلق ہے البتہ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام آباد تہران کے ساتھ تمام امور دوستانہ بات چیت سے حل کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا معاہدہ 2010 میں ہوا تھا۔ تقریباً 1900 کلومیٹر طویل پائپ لائن کا مقصد پاکستان کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 25 سال تک 75 کروڑ سے ایک ارب کیوبک فٹ یومیہ قدرتی گیس فراہم کرنا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ