ٹرمپ نے وائس آف امریکہ اور اردو سروس سمیت دیگر میڈیا اداروں کو ’خاموش‘ کر دیا

وی او اے کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ وہ ان ایک ہزار تین سو افراد میں شامل ہیں جنہیں ہفتے سے چھٹی پر بھیج دیا گیا۔

13 دسمبر 2024 کی اس تصویر میں وائس آف امریکہ کے عملے کی خاتون  ویسٹ پام بیچ پر رپورٹنگ کرتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ہفتے کو اعلان کیا کہ انہوں نے امریکی فنڈ پر چلنے والے براڈکاسٹرز کے عملے کو چھٹی پر بھیج دیا ہے، ان عرصہ دراز سے کام کرنے والے میڈیا اداروں میں وائس آف امریکہ (وی او اے)  اور اس کی اردو سروس بھی شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وی او اے، ریڈیو فری ایشیا، ریڈیو فری یورپ اور دیگر آؤٹ لیٹس کے سینکڑوں عملے کو ہفتے کو ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں ان کے دفاتر جانے سے روک دیا جائے گا اور انہیں پریس پاسز اور دفتر سے جاری کردہ سامان واپس کر دینا چاہیے۔

پہلے ہی ٹرمپ امریکی عالمی ایڈ ایجنسی اور محکمہ تعلیم کی فنڈنگ روک چکے ہیں، نے جمعے کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں امریکی ایجنسی برائے عالمی میڈیا کو ’وفاقی بیوروکریسی کے ان عناصر میں شامل کیا جو صدر کے مطابق غیر ضروری ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فنڈنگ کا روکا جانا اس بات کا ضامن ہے ’ٹیکس دینے والوں کو مجاز نہیں بنائے گا کہ وہ پروپیگنڈا کے لیے‘ پیسے دیں۔

وی او اے کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ وہ ان ایک ہزار تین سو افراد میں شامل ہیں جنہیں ہفتے کو چھٹی پر بھیجا گیا تھا۔

وی او اے کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز کے مطابق: ’مجھے دکھ ہے کہ 83 سالوں میں پہلے دفعہ وائس آف امریکہ کو خاموش کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے فیس بک پر کہا، ’وی او اے کو سوچ سمجھے اصلاحات کی ضرورت ہے اور ہم نے اس سلسلے میں پیشرفت کی ہے۔ لیکن آج کی کارروائی وائس آف امریکہ کو اپنے اہم مشن کو انجام دینے سے قاصر کر دے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے فیس بک پر کہا کہ اس کی کوریج، جو 48 زبانوں میں لگائی جاتی ہے، ہر ہفتے 360 ملین لوگوں تک پہنچتی ہے۔

ردعمل دیتے ہوئے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے سربراہ، جنہوں نے سرد جنگ کے دوران سوویت بلاک میں نشریات شروع کیں، نے فنڈنگ ​​کی منسوخی کو ’امریکہ کے دشمنوں کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ‘ قرار دیا۔

یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کے سابق چیف فنانشل افیسر گرانٹ ٹرنر نے اسی میڈیا آفسز کے لیے’خونی ہفتہ‘ قرار دیا۔

ریڈیو فری ایشیا، جو 1996 میں قائم کیا گیا تھا، ایسے ممالک میں بغیر سینسرشدہ رپورٹنگ فراہم کرتا ہے جن میں چین، میانمار، شمالی کوریا اور ویت نام شامل ہیں۔

ٹرمپ کے دیگر کٹوتی والے اقدام کی طرح امریکی مالی اعانت سے چلنے والے میڈیا کو ختم کرنے کے اقدام کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

صدر کی بجائے کانگریس کو پرس کی آئینی طاقت کا اختیارہے اور خاص طور پر ریڈیو فری ایشیا کو ماضی میں دو طرفہ حمایت حاصل رہی ہے۔

امریکی نیشنل پبلک ریڈیو کے مطابق مشرق وسطیٰ اور کیوبا میں کام کرنے والے نے وفاقی فنڈنگ والے میڈیا نیٹ ورک 63 زبانوں میں سو سے زائد ممالک میں نشریات فراہم کرتے ہیں۔

دوسری جانب لاہور پریس کلب نے وائس آف امریکہ کی اچانک بندش کے امریکی حکومتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’دنیا بھر میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا راگ الاپنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ اقدام افسوسناک ہے۔‘

پریس کلب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں وائس آف امریکہ کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو صدارتی ایگزیکٹو آرڈر سے کسی پیشگی نوٹس کے بغیر نوکریوں سے برخاست کرنا غیرمناسب اقدام ہے جبکہ غیر امریکی ملازمین کو کسی قسم کی اضافی رقوم بھی نہیں دی جا رہیں جس سے یہ صحافی اچانک بے سرو سامانی کا شکار ہو گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ