انڈیا کی شورش زدہ شمال مشرقی ریاست منی پور میں کئی دنوں سے جاری خونی نسلی تشدد اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد منگل کو انٹرنیٹ کی بندش اور کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
منی پور ایک سال سے زیادہ عرصے سے ہندو اکثریتی قبیلے میتی اور عیسائی کوکی برادری کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے جس نے ریاست کو نسلی طور پر تقسیم کردیا ہے۔
گذشتہ ہفتے ریاست میں کم از کم 11 افراد ان جھڑپوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جہاں چند ماہ نسبتاً پرسکون گزرنے کے بعد دونوں برادریوں کے درمیان لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔
وزارت داخلہ کے ایک نوٹس میں تازہ ترین بدامنی پر قابو پانے کے لیے ریاست میں تمام انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروسز کو پانچ دنوں کے لیے بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا: ’کچھ سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا کو بڑے پیمانے پر تصاویر، نفرت انگیز تقریر اور نفرت انگیز ویڈیو پیغامات کی ترسیل کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو عوام کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ عوامی مفاد میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے غلط معلومات اور جھوٹی افواہوں کو پھیلانے سے روک کر مناسب اقدامات کیے جائیں۔‘
منی پور میں گذشتہ سال بھی تشدد کے دوران انٹرنیٹ سروسز مہینوں کے لیے بند کر دی گئی تھیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس تصادم میں تقریباً 60 ہزار افراد بے گھر ہو گئے تھے۔
رواں سال بھی جاری کشیدگی کی وجہ سے ریاست کے ہزاروں باشندے اب بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں آ سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریاستی دارالحکومت امپھال میں سینکڑوں میتی مظاہرین نے منگل کی صبح نافذ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز سے کوکی باغی گروپوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ میتی افراد کوکی برادری کو تازہ ترین واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
انڈیا کے نشریاتی اداروں کی فوٹیج میں ریلی کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کی شیلنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کو طلبہ کا احتجاج اس وقت پرتشدد ہو گیا جب ہجوم نے سکیورٹی فورسز پر پتھر اور بوتلیں پھینکیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ریاست کے ایک اور ضلع میں مظاہرین نے پولیس سے اسلحہ چھین لیا اور ان پر فائرنگ کی جس سے کئی اہلکار زخمی ہو گئے۔
یہ مظاہرے باغیوں کے حملوں کے ردعمل میں کیے گئے جس میں گذشتہ ہفتے 11 افراد مارے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق ’بڑھتے ہوئے اس تشدد‘ میں باغیوں نے دیسی ساختہ ہتھیاروں اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا۔
میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان دیرینہ تناؤ کی وجوہات میں زمین کا تنازع اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم شامل ہے۔
سماجی کارکنوں نے مقامی رہنماؤں پر سیاسی فائدے کے لیے نسلی تقسیم کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔
منی پور میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔
منی پور میں لڑائی کی تاریخ
انڈین ایکسپریس کے مطابق منی پورکو انڈیا میں قدیم ترین باغی تحریکوں کا سامنا رہا ہے۔
1950 کی دہائی میں ناگا قومی تحریک اور ریاستی آزادی کی لڑائی منی پور تک پھیل چکی تھی۔
نیشنل سوشلسٹ کونسل۔ آئی ایم (این ایس سی این۔ آئی ایم) نے 1997 میں انڈین حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ جس وقت یہ تحریک چل رہی تھی منی پور میں نسلی گروہ میتی بھی منی پوری بادشاہ مہاراجہ بودھا چندر اور انڈین حکومت کے درمیان ریاست کے انضمام کے معاہدے کی مخالفت کر رہا تھا۔
1964 میں یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ (یو این ایل ایف) کا قیام عمل میں آیا جس نے انڈیا سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد متعدد میتی باغی گروہ، یا وادی کے دوسرے باغی گروہس وجود میں آئے جن میں پیپلز ریولیوشنری پارٹی آف کنگلی پک (پی آر ای پی اے کے) اور پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) شامل ہیں جنہوں نے چین سے اسلحہ اور تربیت حاصل کی۔ وادی کے یہ گروہ دوہرے مقصد کے ساتھ کام کرتے تھے یعنی انڈیا سے آزادی اور ناگا باغی گروہوں کو روکنا۔
کوکی زومی گروہس درحقیقت کوکی گروہ کے خلاف ناگا جارحیت کا ردعمل تھے۔ 1993میں این ایس سی این۔ آئی ایم کی طرف سے کوکیوں کے قتل عام نے ہزاروں کوکیوں کو بے گھر کر دیا۔ کوکی زومی قبائل نے اس کے بعد مختلف مسلح گروہوں کو منظم کیا۔
تقریباً ایک ہی وقت میں اسی طرح کی جھڑپیں میتیوں اور میتی پنگلوں (مسلمانوں) کے درمیان ہو رہی تھیں۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ اسلام پسند گروہ پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ کی تشکیل ہوئی۔ یہ گروہ اب خطے میں سرگرم نہیں ہیں۔