وہ آلہ جس کے ذریعے ہزاروں میل دور لوگ ایک دوسرے کا ’ہاتھ تھام‘ سکتے ہیں

یونیورسٹی کالج لندن کے محققین نے ایک نئی ٹیکنالوجی تیار کی ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’یہ چھونے کے احساس کو اصلی زندگی کے قدرتی احساسات کی طرح نقل کر سکتی ہے۔‘

 جدید بائیو انسپائرڈ ہیپٹک سسٹم (بی اے ایم ایچ) نامی یہ منفرد آلہ ارتعاش کا استعمال کرتے ہوئے ان اعصابی خلیات کو متحرک کرتا ہے جو چھونے کے ردعمل میں متحرک ہوتے ہیں (برٹش سائنس ایسوسی ایشن)

انسانی لمس کی نقل کرنے والے ایک آلے کی مدد سے ایک دن ہزاروں میل دور رہنے والے لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام سکیں گے یا تابکار مواد کو جدا کر سکیں گے۔

یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کے محققین نے ایک نئی ٹیکنالوجی تیار کی ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’یہ چھونے کے احساس کو اصلی زندگی کے قدرتی احساسات کی طرح نقل کر سکتی ہے۔‘

 جدید بائیو انسپائرڈ ہیپٹک سسٹم (بی اے ایم ایچ) نامی یہ منفرد آلہ ارتعاش کا استعمال کرتے ہوئے ان اعصابی خلیات کو متحرک کرتا ہے جو چھونے کے ردعمل میں متحرک ہوتے ہیں۔

محققین کے بقول اس ٹیکنالوجی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اسے روبوٹ کی مدد سے کی جانے والی سرجریوں میں بھی استعمال کیا جائے سکے، جس سے ڈاکٹروں کو اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ کس قسم کے ٹشوز کا علاج کر رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا یہ کینسر والے ہیں یا نہیں۔

سائنس دان فی الحال اس کا استعمال مزید سمجھنے کے لیے کر رہے ہیں کہ جن مریضوں کی انگلیوں میں حساسیت کم ہوتی ہے، وہ وقت کے ساتھ چھونے کا احساس کیسے کھو دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صحت کے شعبے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے، ان لوگوں کے لیے تشخیصی آلے کے طور پر جن کو میٹاکارپل ٹنل سنڈروم ہے۔ یہ بیماری اس وقت ہوتی ہے جب کلائی کا عصب دب جاتا ہے، یا ذیابیطس (شوگر) میں، جس میں چھونے کی حس میں کمی ایک علامت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یو سی ایل کے مکینیکل انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کی روبوٹکسٹ ڈاکٹر سارہ آباد کا کہنا ہے کہ ’جلد ہمارے جسم کے سب سے بڑے اعضا میں سے ایک ہے اور یہ کئی طرح کی معلومات فراہم کرتی ہے، مثال کے طور پر ساخت اور کنارے ( ان چیزوں کے جنہیں ہم چھوتے ہیں)۔

’ یہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم کس قسم کے محرک محسوس کر رہے ہیں، مثال کے طور پر ارتعاش۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ آلہ ’ہمارے ورچوئل سماجی تعاملات میں لمس کے احساس کو شامل کرنے‘ کا ایک طریقہ بھی فراہم کرتی ہے۔

ڈاکٹر سارہ آباد نے کہا: ’مثال کے طور پر، وبائی امراض اور گلوبلائزیشن کے وقت، اس بات کا بہت امکان ہے کہ آپ کا خاندان آپ کی طرح ایک ہی شہر میں نہ رہ رہا ہو۔

’بدقسمتی سے، ویڈیو کالز میں، یہ ایک رکاوٹ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سماجی تعلقات کے لیے آپ کو چھونے کے احساس کی ضرورت ہے، لیکن ویڈیو کال میں یہ نہیں ملتا۔‘

بی اے ایم ایچ میں ایک سلیکون سے بنی انگلی کی پور شامل ہے، جو ایک چھوٹے سوٹ کیس کے سائز جتنی ایک مشین سے منسلک ہے۔

ٹیم کے مطابق یہ جلد میں چار اہم حسی اعصابی خلیات یا ٹچ ریسیپٹرز کو متحرک کرکے کام کرتا ہے، جس سے مریض کو ’چھونے کا حقیقی احساس‘ ملتا ہے۔

محققین اگلے چند مہینوں میں کلینیکل ٹرائل کے لیے کم از کم 10 افراد کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس بارے میں مزید جان سکیں کہ وقت کے ساتھ چھونے کا احساس کس طرح کم ہوتا ہے۔

یو سی ایل میں روبوٹکس کے چیئرمین پروفیسر ہیلج ورڈیمین کا کہنا ہے ’ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ کیا ہم وقت کے ساتھ چھونے کی حساسیت میں کسی کمی کا پتہ چلا سکتے ہیں۔

’اور پھر ہم یہ ڈیٹا ڈاکٹروں کو فراہم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ کیا وہ اپنے موجودہ علاج کی روشنی میں تبدیلیاں کر سکتے ہیں، تاکہ لمس کی حس میں کمی کی رفتار کو سست کیا جا سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے کے علاوہ بھی اس آلے کے زیادہ جدید ورژن، جس میں دستانے شامل ہوسکتے ہیں جو ’آپ کے ہاتھوں کو مکمل احساس‘ دلا سکتے ہیں، جوہری فضلے کو ختم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں جہاں بڑے روبوٹ اکثر خطرناک علاقوں میں کام کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

پروفیسر ورڈیمین کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ نے تابکار مواد کو الگ کرنا ہے تو مختلف اجزا کو ترتیب دینے کے لیے چھونے کا ایک حقیقت پسندانہ احساس بہت اہم ہو سکتا ہے۔‘

اس ٹیم نے اپنی ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف ایسٹ لندن میں منعقدہ برٹش سائنس فیسٹیول میں پیش کی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی