ایک چھوٹا سا آلہ جسے پہن کر کرونا کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے

امریکی سائنس دانوں نے کرونا وائرس پکڑنے والا ایک ہلکا پھلکا آلہ تیار کیا ہے جسے چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت نہیں اور اسے تھری ڈی پرنٹ کرنا آسان ہے۔

فریش ایئر کلپ نامی  آلے کا بنیادی ورژن کرونا وبا سے پہلے ہی پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا تھا (تصویر ڈاکٹر کرسٹل پولیٹ، دی انڈپینڈنٹ)

اپنی چابیاں اور بٹوا لے لیا؟ ہاں۔ فیس ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر رکھ لیاِ؟ ہاں۔ پہننے والا کووڈ مانیٹر؟ ابھی نہیں، مگر شاید جلد ہی۔

یہ سب احتیاطیں کرونا وبا کی دین ہیں لیکن کیا کبھی ایسا ممکن ہو گا کہ ہمارے پاس ایک ایسی ڈیوائس ہو جسے پہن کر ہم انفیکشن کا پتہ لگا لیں۔ فی الحال اس کا کوئی جواب نہیں لیکن شاید ایسا جلد ممکن ہو جائے۔

کرونا کی وبا نے ان ضروری اشیا کی فہرست میں اضافہ کر دیا ہے جن کی ہمیں گھر سے باہر نکلنے پر ضرورت پڑتی ہے۔

مگر اب سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان اشیا میں ایک چھوٹا کلپ آن آلہ بھی شامل ہو جائے گا، جسے پہننے والے اپنے ارد گرد ہوا میں کرونا (کورونا) وائرس کا پتہ لگا سکیں گے۔

امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے ییل سکول آف پبلک ہیلتھ کے محققین کی ایک ٹیم نے ’فریش ایئر کلپ‘ نامی وائرس پکڑنے والا ایک ہلکا پھلکا آلہ تیار کیا ہے جسے چلانے کے لیے توانائی کی ضرورت نہیں اور اسے تھری ڈی پرنٹ کرنا آسان ہے۔ 

پہلے پہل یہ آلہ ہوا میں موجود آلودگی اور کیڑے مار ادویات جیسے مادوں کا مطالعہ کرنے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔

اس آلے سے ہسپتالوں اور ریستوراںوں جیسی وائرس کے خطرے کا سامنا کرنے والی کام کی جگہوں پر کرونا وائرس کو آسان اور سستے طریقے سے ٹریک کر سکیں گے اور یہ لوگوں کی وائرس کے خطرے سے بچنے یا احتیاط اپنانے میں مدد کرے گا۔ 

تاہم ہر ایک نمونے کا تجزیہ کرنے والے پی سی آر ٹیسٹس، جن کا امریکہ، برطانیہ اور دیگر جگہوں پر بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے، کی موجودگی میں اس آلے کو بڑے پیمانے پر اپنائے جانے میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔

محققین کی ٹیم کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر کرسٹل پولیٹ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہ واقعی دیگر تمام دستیاب متعدی امراض کو کنٹرول کرنے والے اقدامات کے لیے ساتھی آلہ ہے۔

’ہم جانتے ہیں کہ ماسک پہننا تحفظ کے لیے ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رش میں کمی اور کمروں کو ہوا دار رکھنا بھی موثر ہے۔‘

ان کے بقول: ’یہ صرف ایک اور آلہ ہے جس کا استعمال لوگوں کو وائرس سے ممکنہ سامنا ہونے سے آگاہ کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے اور ایسی جگہوں، جن کو دیگر حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہو، کو اجاگر کیا جا سکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کم لوگوں کو اس وائرس کا سامنا ہو۔

’روایتی طور پر ہوا میں موجود مواد کی پیمائش کرنا بہت مشکل رہا ہے کیونکہ نمونے لینے کے تمام آلات کی ضرورت ہے جو اپنے پمپس اور تاروں کے باعث عام طور پر بہت شور کرتے ہیں۔

’اس قسم کی نگرانی سے آپ کسی بھی جگہ جا کر جانچ سکتے ہیں کہ ہوا میں کیا مواد اور کتنی مقدار میں ہیں۔‘

صرف پانچ سے 10 ڈالرز کا کلپ

فریش ایئر کلپ کا بنیادی ورژن کرونا وبا سے پہلے ہی پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ پروفیسر پولیٹ کی ٹیم نے اسے ماحولیاتی آلودگی کے مطالعہ کے لیے کلپ آن یا کلائی پر باندھنے والے بینڈ کی صورت میں لوگوں میں تقسیم کیا تھا، جن میں دمے کے شکار بچے بھی شامل تھے۔

یہ ٹیم دمہ اور کروہنز ڈیزیز جیسی بیماریوں کی وجوہات کو سمجھنے کی امید میں ان کلپس کا استعمال کرتے ہوئے فوسل فیول، چولہے اور گھریلو ساز و سامان کے ذریعے بیماریوں کا باعث بننے والی مختلف گیسز، کیڑے مار ادویات اور دیگر ذرات کا مشاہدہ کر رہی تھی۔

پروفیسر پولیٹ کا کہنا ہے: ’جیسے ہی کرونا کی وبا کا آغاز ہوا ہم نے اس کے ہوا میں ہونے کی صلاحیت کو سمجھا۔ اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہمیں اس آلے کو ہوا میں وائرس کے نمونے جانچنے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے۔‘

اگلے دو سالوں میں پروفیسر پولیٹ کے ساتھی ڈاکٹر ڈونگ گاؤ نے کووڈ کا باعث بننے والے وائرس SARS-Cov-2 سے ملتی جلتی خصوصیات کے حامل وائرس کے ذرات سے بھرے گھومتے ہوئے ڈرم میں ان کلپس کا تجربہ کیا۔

ان ڈرمز کو ہوا میں پھیلنے والے وائرسز کی نقل و حرکت کے حساب سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

اس کے بعد ٹیم نے کلپس کو 62 رضاکاروں میں تقسیم کیا جنہوں نے انہیں پانچ دن تک پہنا۔

بعد ازاں تجزیہ کرنے پر ان کلپس میں سے پانچ میں SARS-Cov-2 کے شواہد ملے جن میں سے چار کو ریستوراں کے عملے نے پہنا ہوا تھا جبکہ پانچواں بے گھر افراد کے لیے قائم شیلٹر میں کام کرتا تھا۔

ان کلپس کی بناوٹ سادہ ہے جس میں پلاسٹک کی ایک پٹی کے ساتھ مقناطیسی فاسٹنر لگا ہوتا ہے تاکہ اسے کورٹ یا جیکٹ کے لیپل یا جیب سے لگایا جا سکے۔

پلاسٹک کی پٹی کے اندر پولی ڈیمیتھائلسلیکسین یا PDMS نامی مادے سے بنی پٹی ہوتی ہے جو ذرات کو پکڑتی ہے۔

اس کے بعد ہر آلے کو لیبارٹری میں واپس بھیجا گیا جہاں اس میں لگی پٹی کا تجزیہ پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے کیا گیا تھا۔

پی سی آر ٹیسٹ ہوم ٹیسٹنگ کٹس میں استعمال ہونے والے اینٹیجن یا لیٹرل فلو ٹیسٹس سے کہیں زیادہ حساس ہوتے ہیں۔

یہ وائرس کی چھوٹی سے چھوٹی تعداد کا پتہ لگانے کے قابل ہوتے ہیں جو وائرس کے تھوڑے سے ایکسپوژر سی بھی ہوا ہو۔ 

ٹیسٹنگ کے عمل میں شامل پی ایچ ڈی کی طالب علم ڈیرل اینجل کا کہنا ہے کہ یہ کلپس ہوا کے نمونے لینے والی فعال مشینوں سے بالکل مختلف ہیں جنہیں بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور مشکل سے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اس عمل میں ہر ٹیسٹ کی لاگت کا تخمینہ 14 ڈالرز لگایا گیا ہے جب کہ اس آلے کی قیمت صرف پانچ سے 10 ڈالرز کے درمیان ہے۔

اور چونکہ ان کلپس میں کسی بھی جسمانی نمونوں یا سیال مادوں کی جانچ نہیں کی جاتی اس لیے انہیں امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) سے کلیئرنس کی ضرورت بھی نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کرنا مشکل نہیں ہوگا۔

’ٹیسٹنگ سب سے بڑا چیلنج‘

فریش ایئر کلپ کے لیے بڑی رکاوٹ ٹیسٹنگ ہے۔ اگرچہ اینجل اس عمل کو آسان بنانے کے طریقوں کی جانچ کر رہی ہیں لیکن ان طریقوں کے لیے جدید ترین آٹومیشن آلات کی ضرورت ہوتی ہے جو ابھی تک وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں۔

امریکہ اور برطانیہ کو کرسمس کی تعطیلات کے دوران ٹیسٹنگ کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقعے پر برطانوی حکومت کی مرکزی ٹیسٹنگ ویب سائٹ پر انگلینڈ میں کہیں بھی پی سی آر ٹیسٹ دستیاب نہیں تھے۔

ان کلپس سے انفرادی ایکسپوژر کو ٹریک کرنے میں زیادہ مدد ملنے کا بھی امکان نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں کانٹیکٹ ٹریسنگ ایپ ایک موثر طریقہ ہے جس کے ذریعے انفیکشن سے متاثرہ شخص سے قریبی رابطے میں رہنے والے تمام لوگوں کو نوٹیفیکیشن موصول ہو جاتے ہیں یا قریب رہنے والے شخص کو خود اندازہ ہوتا ہے۔

اگر آپ پانچ دن تک فریش ایئر کلپ پہنتے ہیں اور پھر اس کا مثبت نتیجہ آتا ہے تو آپ کو معلوم نہیں ہوگا کہ اس ڈیوائس نے وائرس کہاں اور کب پکڑا۔ اور نہ ہی آپ کو یہ معلوم ہونے کا امکان ہے کہ یہ ایکسپوژر کتنا قریب یا دیرپا تھا۔

ییل ٹیم اب اس بات کا جائزہ لینے کے طریقوں پر بھی تحقیق کر رہی ہے کہ آیا کسی انفرادی کلپ سے پکڑا گیا وائرس اس قدر زیادہ تعداد میں تھا کہ یہ کسی اور کو متاثر کر سکتا ہو۔

پھر بھی پروفیسر پولیٹ کا کہنا ہے کہ اس آلے سے لوگوں کو یہ اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ مخصوص جگہوں پر کتنا خطرہ مول لے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتی ہیں: ’یہ آلہ لوگوں کو یہ سمجھنے کا آپشن دے رہی ہے کہ وہ کس چیز کا سامنا کر رہے ہیں خاص طور پر اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ زیادہ خطرے والے ماحول میں ہیں۔‘

سب سے زیادہ فائدہ اداروں کو ہونے کا امکان ہے جو عملے یا صارفین کو یہ بیجز جاری کر سکتے ہیں تاکہ اس سے ایک منظم تصویر حاصل کی جا سکے کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنے لوگ وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

متوقع نتائج سے زیادہ یہ اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ جگہوں کو زیادہ ہوا دار رکھنے کے مزید آلات یا نئے حفاظتی اصول کتنے ضروری ہیں یا یہ کہ موجودہ آلات کام نہیں کر رہے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ابھی تک پروفیسر پولیٹ کی ٹیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان آلات کو بڑے پیمانے پر کیسے استعمال کیا جائے اور ساتھ ہی ان کا استعمال اور وائرسز کی جانچ کے لیے کیا جائے۔

ریاست کنیکٹیکٹ میں مختلف مقامات پر طبی ادارے پہلے ہی اس کا تجربہ کر رہے ہیں۔

پروفیسر پولیٹ کا کہنا ہے: ’اس میں دہائیاں نہیں لگیں گی۔ ان کو بروقت تجزیہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔ یہ سروس شروع کرنے سے پہلے وہ چیلنج ہے جس پر ہمیں قابو پانا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی