پشاور ہائی کورٹ نے جمعرات کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو بین الاقوامی جوا کمپنیوں کی طرف سے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کو سپانسر کرنے سے روک دیا اور اس کی تشہیر پر پابندی عائد کی۔
پی ایس ایل کو جوا کمپنیوں کی جانب سے سپانسر کرنے کے خلاف پاکستانی شہری تنصیر شیرازی نے پشاور ہائی کورٹ میں گذشتہ سال مارچ میں درخواست دائر کی تھی۔
کیس کی سماعت آج پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی جس میں چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس وقار احمد شامل تھے۔
پی ایس ایل میں مختلف ٹیموں اور کھلاڑیوں کو مختلف ناموں سے بین الاقوامی جوا کمپنیوں نے سپانسر کرنا شروع کیا تھا جس پر سوشل میڈیا پر تنقید بھی کی گئی تھی۔
ان کمپنیوں کے لوگو کی کھلاڑیوں کی شرٹس پر تشہیر ہوتی ہے جبکہ مختلف کمپنیوں کی جانب سے پوری ٹیم کو بھی سپانسر کیا جاتا ہے۔
گذشتہ سال وفاقی نگران حکومت نے سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد ان کمپنیوں کی جانب سے پی ایس ایل کو سپانسر کرنے سے پی سی بی کو روک دیا تھا اور ان کمپنیوں کی تشہیر پر پابندی عائد کی تھی۔
درخواست گزار کے وکیل محمد نعمان محب کاکاخیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عدالت میں پاکستان الیکٹرانکس میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پی سی بی، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور سٹیٹ بینک کے نمائندے پیش ہوئے۔
درخواست گزار نعمان محب کاکاخیل نے بتایا کہ ’عدالت میں ہم نے اپنا موقف پیش کیا اور عدالت میں مختلف جوا کمپنیوں کی جانب سے پی ایس ایل سمیت پاکستان کے بین الاقوامی میچز میں کھلاڑیوں کو سپانسر کرنے کے ثبوت پیش کیے۔‘
انہوں نے بتایا، ’ہم نے محمد رضوان کی تصاویر بھی عدالت میں پیش کیں جن کی شرٹ پر ایک جوا کمپنی کا لوگو تھا اور محمد رضوان نے لوگو کو چھپانے کے لیے پٹی لگائی تھی۔’
عدالت میں دوران سماعت چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیتے ہوئے بتایا کہ محمد رضوان کی جانب سے جوا کمپنی کے لوگو پر ٹیپ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ کھلاڑی بھی اس کو پسند نہیں کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نعمان محب کاکاخیل نے بتایا، ‘عدالت کو بتایا گیا کہ مختلف کمپنیوں کی باقاعدہ پاکستان میں ہیلپ لائن موجود ہے جو پی ایس ایل کے دوران اآن لائن جوا کھیلنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں۔’
اسی طرح درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکاخیل نے عدالت کو بتایا کہ ’یہ کمپنیاں خود کو کھیلوں کی نیوز ویب سائٹس اور کھیل کے حوالے سے مصنوعات بنانے کی کمپنیاں شو کرتی ہیں لیکن بظاہر یہ جوا کمپنیاں ہیں۔‘
نعمان محب کاکاخیل کے مطابق عدالت نے ان کمپنیوں کی تشہیر پر پابندی پاکستان کے 1977 کے قانون کے تحت لگائی ہے، جس میں جوئے پر پابندی ہے۔
پاکستان میں 1977 کے پریوینشن آف گیمبلنگ ایکٹ کے تحت کسی قسم کا جوا کھیلنے پر پابندی ہے اور جوا کھیلنے والوں کی اس قانون میں ایک ماہ سے ایک سال تک کی سزا مقرر ہے۔
پی سی بی کے وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ’اس درخواست کے بعد ہم نے مختلف نشستیں کی ہیں اور ہم نے ایسی تمام کمپنیوں پر پابندی عائد کی ہے جس میں 1xBat اور MeIBaT نامی کمپنیاں بی شامل ہیں۔‘
پی سی بی کی جانب سے بتایا گیا کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر یہ کمپنیاں پی ایس ایل کو سپانسر نہیں کریں گے، تاہم پی سی بی نے بتایا کہ بین الاقوامی میچز آئی سی سی کے زیر اہتمام ہوتے ہیں۔
اس پر عدالت نے بتایا کہ ’بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی شرٹس وغیرہ پر ان کمپنیوں کے لوگوز نہیں ہوں گے کیونکہ یہ کھلاڑی پی سی بی کے کنٹرول میں ہیں اور یہ پی سی بی کی ذمہ داری ہے۔‘
عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے پی سی بی کو پی ایس ایل میں ان کمپنیوں کی جانب سے کسی بھی ٹیم کو سپانسر کرنے یا کھلاڑی کی شرٹ پر لوگو کی تشہیر سے روک دیا اور اس فیصلے پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔