پاکستان ہاکی: ’ایک بھولی ہوئی داستاں، ایک گزرا خیال‘

اگر آج نغمہ نگار مسرور انور زندہ ہوتے تو اپنے اس نغمے کو پاکستان ہاکی کے نام کر دیتے جو اس وقت اپنے شاندار ماضی کو یاد کر رہی ہے۔

پاکستان کے عبدالرانا نو اگست، 2023 کو چنئی میں انڈیا کے خلاف ایشین چیمپیئنز ٹرافی کے میچ میں گیند پر کنٹرول کی کوشش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

یہ مشہور فلمی نغمہ کہیں سے سنائی دیا تو نجانے کیوں خیال آیا کہ اگر آج نغمہ نگار مسرور انور زندہ ہوتے تو اپنے اس نغمے کو پاکستان ہاکی کے نام کر دیتے جو اس وقت اپنے شاندار ماضی کو یاد کر رہی ہے۔

آپ یقیناً میری اس بات پر حیران ہوں گے کہ پاکستان ہاکی ٹیم ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں کانسی کا تمغہ جیت کر وطن واپس لوٹی ہے اور میں اس جیت کے گن گانے کی بجائے بھولی ہوئی داستاں گنگنا رہا ہوں تو اس کی کوئی تو وجہ ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

 میں نے یہ بات قومی ہاکی کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں کہی ہے۔ جس کھیل نے شاندار ماضی دیکھ رکھا ہو  اس میں اس کانسی کے تمغے کی کوئی چمک نظر نہیں آتی۔

یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ جس چینی ٹیم کو پاکستانی ٹیم نے گروپ میچ میں پانچ - ایک کے واضح فرق سے شکست دی، چند روز بعد اسی سے سیمی فائنل میں ہار گئی۔

سب سے زیادہ مایوسی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی ہاکی میں سیاست اور منافقت اس قدر رچ بس گئی ہے اور بے یقینی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ قومی کھیل اوپر اٹھتا نظر نہیں آتا۔

صرف زبانی جمع خرچ اور بلند بانگ دعوؤں سے قومی ہاکی کے معاملات چلائے جا رہے ہیں اور کھلاڑی اپنے بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر بیرون ملک رخ کر رہے ہیں۔

ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستانی ہاکی ٹیم چین سے سیمی فائنل ہاری جس کی عالمی رینکنگ 23 ویں ہے جبکہ اسی عالمی رینکنگ میں پاکستان کا نمبر 15 واں ہے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر اور  سیکریٹری ایشین چیمپیئنز ٹرافی سے قبل میڈیا میں یہ کہتے پائے گئے کہ ہمیں ادھار لے کر ٹیم کو چین بھجوانے کا بندوبست کرنا پڑا ہے۔

ان کے اس بیان پر ہر کوئی فیڈریشن سے ہمدردی کرتا اور یہی کہتا نظر آیا کہ اس قومی کھیل کے ساتھ کتنا ظلم ہو رہا ہے کہ فیڈریشن کے پاس قومی ٹیم کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے پیسے تک نہیں۔

لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بتاتا ہے کہ اگر پاکستان ہاکی فیڈریشن مالی طور پر اتنی ہی قلاش ہو چکی ہے کہ اس کے پاس کھلاڑیوں کے ہوائی  ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں تھے اور سب کچھ ادھار پر چل رہا ہے تو پھر اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ  اور نیشنز کپ میں فیڈریشن کے صدر طارق بگٹی اور سیکریٹری رانا مجاہد کے لیے ملائیشیا اور پولینڈ جانے کے لیے ٹی اے ڈی اے کی مد میں لاکھوں روپے کہاں سے آ گئے؟

 پی ایچ ایف  کے صدر تو تیسرا دورہ چین کا بھی کر کے آگئے ہیں۔ مطلب ایک طرف توغریبی کا رونا اور دوسری جانب جوائے رائیڈنگ کو بھی نہ چھوڑنا۔

پی ایچ ایف نے علی الاعلان تسلیم کیا ہے کہ صدر اور سیکریٹری نے ملائیشیا اور پولینڈ کے دوروں کے لیے ٹی اے ڈی اے کی مد میں 92 لاکھ روپے وصول کیے، جو فیڈریشن کے قواعدوضوابط کے مطابق ان کا حق بنتا تھا اور ماضی میں بھی فیڈریشن کے صدور اور سیکریٹریز یہ الاؤنسز لیتے رہے ہیں۔

آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ غیرملکی دورے پر فیڈریشن کے صدر کا ڈیلی الاؤنس 500 ڈالرز یومیہ ہے۔

یعنی ایک طرف یہ کہنا کہ ٹیم کو باہر بھیجنے کے لیے پیسے نہیں اور دوسری طرف اسی اکاؤنٹ سے اپنے لیے لاکھوں روپے فوراً وصول کر لینا؟

یہ بھی کسی مذاق سے کم نہیں کہ ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی ٹیم کے ہر کھلاڑی کے لیے فیڈریشن کے صدر نے سو ڈالرز کا اعلان کیا جو پاکستانی روپے میں صرف 28 ہزار روپے بنتی ہے۔

فیڈریشن کے صدر کی اس فراخ دلی پر سابق اولمپیئن گول کیپر سلیم شیروانی کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی کہ ان کھلاڑیوں کو ان ڈالرز کی حفاظت کے لیے فوری طور پر گارڈز کا بندوبست کر لینا چاہیے۔

ہم ایک عرصے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن ہمیشہ حکومتی گرانٹ کی منتظر رہتی ہے اور اس بارے میں اس کے گلے شکوے ختم نہیں ہوتے حالانکہ قاسم ضیا، اختر رسول، خالد سجاد کھوکھر، آصف باجوہ، شہباز احمد اور رانا مجاہد، غرض ہر اولمپیئن کے دور میں پی ایچ ایف کو حکومت کی طرف سے رکاوٹ کے بغیر گرانٹ ملتی رہی ہے۔

یہاں تک کہ سندھ کی حکومت بھی فیڈریشن کو ایک بڑی رقم فراہم کرتی رہی ہے لیکن دوسری طرف ان عہدے داران پر مبینہ طور پر مالی اور انتظامی  بے ضابطگیوں اور ان کے خلاف تحقیقات کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ موجودہ فیڈریشن نے ایشین چیمپیئنز ٹرافی کی تیاری کے لیے کیمپ اور دورے کے لیے پاکستان سپورٹس بورڈ سے بھاری رقم کا مطالبہ کیا تھا جسے پاکستان سپورٹس بورڈ نے یکسر مسترد کر دیا۔

ساتھ ہی سپورٹس بورڈ نے کہا تھا کہ اس نے فیڈریشن سے کچھ ضروری دستاویزات طلب کی تھیں جو اسے مہیا نہیں کی گئیں۔

 ابھی چند روز قبل ہی پاکستان سپورٹس بورڈ نے مختلف کھیلوں کی قومی فیڈریشنوں کو جاری کردہ گرانٹ کے جو اعداد وشمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق پاکستان ہاکی فیڈریشن کو پچھلے پانچ سال کے دوران 10 کروڑ ساڑھے 36 لاکھ روپے کی رقم دی جا چکی ہے جن میں سے صرف ایک مالی سال 24 / 2023 میں پانچ کروڑ 90 لاکھ روپے کی گرانٹ دی گئی۔

تین روز قبل ہی یہ خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بنی کہ پاکستان سپورٹس بورڈ نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے 23 ملین روپے کی رقم فراہم کی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان ہاکی فیڈریشن واقعی مالی مشکلات سے دوچار ہے تو پھر اس کے صدر ہر غیرملکی دورے پر کیوں نکل پڑتے ہیں؟

کیا ان کی شخصیت میں ائیرمارشل نورخان جیسی سحر انگیزی موجود ہے کہ وہ ان غیرملکی دوروں پر ٹیم کے حوصلے بڑھانے جاتے ہیں۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے غیرپیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے کوئی بھی غیر ملکی کوچ اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال ہالینڈ کے رولینٹ آلٹ منز کی ہے جن کے بارے میں فیڈریشن کے کرتا دھرتا حقائق بتانے سے گریزاں ہیں۔

حقیقیت یہ ہے کہ فیڈریشن نے ایشین چیمپیئنز ٹرافی کے لیے اسلام آباد میں جو کیمپ لگایا تھا اس میں اس نے آلٹ منز کو بلانے کی زحمت ہی نہیں کی کیونکہ اس کے لیے ڈچ کوچ کو پیسے دینے پڑتے بلکہ فیڈریشن نے ان سے یہ کہا کہ وہ چین میں ٹیم کو جوائن کرلیں۔

آلٹ منز فیڈریشن کے ساتھ لمبے عرصے کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے لیکن فیڈریشن کی عدم دلچسپی کے بعد انہوں نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ساتھ مزید کام کرنے سے انکار کر دیا اور آخری لمحات میں سابق اولمپیئن طاہر زمان کو کوچ مقرر کیا گیا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ آلٹ منز سے قبل ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے دو کوچز مائیکل وان ڈین اور سیگفرائٹ ایکمین نے بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے غیر پیشہ ورانہ انداز کا کھلے عام شکوہ کیا تھا۔

مائیکل وان ڈین کو سلیکشن پر اختلافات تھے جبکہ ایکمین نے گذشتہ سال تنخواہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے استعفی دے دیا تھا۔

ایک طرف تو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے کرتا دھرتا مالی مشکلات کا رونا روتے ہیں تو دوسری جانب متعدد کھلاڑیوں نے بھی یہاں کے حالات دیکھ کر بیرون ملک کا رخ کر لیا ہے تاکہ اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم اپنے متعدد کھلاڑیوں کی خدمات سے محروم تھی جو اس وقت ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔

ان میں سے تین کھلاڑیوں مرتضی یعقوب، عبدالرحمن اور احتشام اسلم پر پی ایچ ایف نے تاحیات پابندی کر دی ہے جو بقول اس کے فیڈریشن کو بتائے بغیر ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور وہاں انہوں نے پناہ لے لی ہے۔

میری ہاکی پر متعدد سابق اولمپینز سے باقاعدہ بات ہوتی رہتی ہے۔ منظور الحسن کا کہنا ہے کہ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی ٹیم شوٹ آؤٹ پر ہاری اور اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی میں نئے کھلاڑیوں سے شوٹ آؤٹ کیوں کرائے گئے؟

 منظور الحسن کے خیال میں یہ دور ایسا ہے کہ جس میں کوئی چیز چھپائی نہیں جا سکتی، ہر چیز کھلی کتاب کی طرح ہے اور فیڈریشن کو بھی اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے۔

ملک بھر میں کھیلوں کا کلچر متعارف کرائے بغیر ہاکی کو دوبارہ اس کے پرانے مقام پر نہیں لایا جاسکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ حکومت کا کام ہے۔ ہاکی کا زوال تو کئی برس پہلے سے شروع ہو گیا تھا۔ اداروں نے ٹیمیں ختم کر دی ہیں۔

قومی جونیئر چیمپیئن شپ پانچ سال بعد اب دوبارہ ہو رہی ہے۔ جب یہی باقاعدگی سے نہ ہو تو ٹیلنٹ کہاں سے آئے گا؟

سابق اولمپئن رشید الحسن کے خیال میں موجودہ صورت حال پریشان کن ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ چین جیسی ٹیم سے بھی ہارجائیں گے لیکن یہ دن بھی دیکھنا پڑا۔

گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی ٹیم بڑے اور اہم میچ میں افراتفری کا شکار ہوتی نظر آئی۔

میں نے ایشین چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ طاہر زمان سے بھی بات کی اور ان سے موجودہ صورت حال پر ان کی رائے جاننی چاہی۔

طاہر زمان سے میرے تین دہائیوں سے قریبی مراسم رہے ہیں۔ وہ ایک صاف گو انسان ہیں جو کسی لگی لپٹی کے بغیر بات کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آخری لمحات میں کوچ بننے کا فیصلہ انہوں نے ملک کی خاطر کیا، یہ ایک مشکل فیصلہ تھا حالانکہ  انہیں پتہ ہے کہ کوئی بھی پروفیشنل کوچ ان کے اس فیصلے کو تنقیدی نظر سے ہی دیکھے گا۔

طاہر زمان نے بتایا کہ فیڈریشن اور وہ دونوں مستقبل میں اس رفاقت کو جاری رکھنے کے حق میں ہیں جس پر اب باقاعدہ بات ہوگی لیکن انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ پاکستان کی ہاکی میں اب بھی دم خم ہے اسے بہتر پلاننگ کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے پروفیشنل سوچ اختیار کرنی ہوگی۔ یہاں پروفیشنل لیگ شروع کرنی ہوگی۔

نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر کا بننا ضروری ہے۔ کھلاڑیوں کی ویلفیئر پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ انہیں سینٹرل کنٹریکٹ ملنے چاہییں۔

ایسا سسٹم بنانے کی ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کو بروقت ان کے الاؤنسز مل جایا کریں۔

کھلاڑیوں اور فیڈریشن کے درمیان اعتماد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ فنڈز کا ہونا بہت ضروری ہے۔

ایسا مکینزم بنایا جائے کہ اگر حکومت پیسہ نہیں دیتی لیکن وہ فیڈریشن کے اس ہائی پرفارمنس پروگرام پر عمل درآمد کے لیے جو بھی ضروریات ہیں وہ خود پوری کر دے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل