چار کروڑ افغانوں کو تنہا چھوڑنا مسئلے کا حل ہے؟

طالبان کو تنہا کرنا طالبان کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا کہ یہ افغانستان کے چار کروڑ افغانوں اور پورے خطے کو متاثر کرتا ہے۔

29 اپریل 2023 کو کابل میں افغان خواتین اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو تین سال ہو چکے ہیں اور ہمسایہ ملک پاکستان کی صورت حال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے جبکہ ایک سابق وزیر اعظم جیل میں ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہر روز بڑھ رہی ہیں اور  افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کے سرحد پار حملوں میں سینکڑوں پاکستانی فوجی جان سے جا چکے ہیں۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کو پرتشدد علیحدگی پسند تحریک نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی قیادت بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کر رہی ہے۔

مختلف گروپوں میں شامل بی ایل اے نے جو ہمسایہ ملک افغانستان میں چھپی ہوئی ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے لوگ اکثر سرعام دکھائی دیتے ہیں، چین اور اس کے کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے، جو پاکستان میں چین کے ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کو عملی شکل دے رہے ہیں جو چین کو اس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ جوڑتا ہے۔

پاکستان فوج کے باضابطہ بیان کے مطابق گذشتہ ماہ پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کو ریٹائرمنٹ کے بعد ’پاکستان آرمی ایکٹ کی متعدد خلاف ورزیوں‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان جرائم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دیگر مبینہ جرائم سمیت رئیل اسٹیٹ کے مشکوک سودوں کے ساتھ ہے۔

باہمی اعتماد کا فقدان

افغان جنرل فیض حمید کو 15 اگست 2021 سے یاد رکھیں گے جب انہیں صدر اشرف غنی کی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے چند دن بعد کابل میں دیکھا گیا۔

وہ ایک پرتعیش فائیو سٹار ہوٹل میں کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ کسی بھی ملک کے معاملے میں اس سے زیادہ غلط نہیں ہو سکتے تھے۔

اسلام آباد میں قائم آزاد ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے بانی اور صدر محمد عامر رانا نے رواں ماہ مجھے بتایا کہ طالبان کی واپسی کے بعد اور یہ سمجھتے ہوئے کہ پاکستان کا افغانستان کے طالبان پر اثر و رسوخ ہے، چین، امریکہ اور زیادہ تر دیگر ملکوں نے 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے ابتدائی دنوں میں پاکستان کو موقع دیا وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرے۔

لیکن یہ حکمت عملی بین الاقوامی برادری کی بنائی زیادہ تر افغان حکمت عملیوں کی طرح ناکام رہی ہے۔

اگرچہ پاکستان نے افغانستان کے طالبان کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی اور امریکی قیادت میں 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران ان کے زخمیوں کے اپنے ہسپتالوں میں علاج کی سہولت فراہم کی لیکن افغان طالبان نے پاکستان پر اعتماد نہیں کیا۔ نہ ہی پاکستان نے ان پر اعتماد کیا۔

اعتماد کی  دو طرفہ کمی طویل عرصےسے کھلا راز چلا آ رہا ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی برادری نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا۔

1996 میں جب طالبان نے پہلی بار افغانستان پر حکومت کی تو انہوں نے پاکستان کی بات نہیں سنی۔ وہ اب بھی کم سنتے ہیں اور آج ان کا اسلام آباد کے خلاف رویہ زیادہ جارحانہ ہے۔

طویل سرحد پر پاکستان اور طالبان فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات آج اپنی نچلی ترین سطح پر ہیں اور کسی بھی ملک کے پاس آگے بڑھنے کی حکمت عملی نہیں۔

بین الاقوامی برادری کے پاس نہ تو وقت ہے، نہ علم اور نہ ہی خطے میں بڑھتے ہوئے پرتشدد خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کی مدد کرنے کی خواہش موجود ہے۔

موجودہ صورت حال کے سنگین نتائج

تین سال گزر جانے کے بعد بھی افغانستان کے علاقے میں بہت سے عسکریت پسند گروہ موجود ہیں جو اپنے اڈے قائم کر رہے ہیں، بھرتی کی مہم چلا رہے ہیں اور اپنے ہمسایوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔

یہ ضروری نہیں کہ طالبان چاہتے ہوں کہ یہ تمام گروہ اس کی سرزمین پر موجود رہیں اور نہ ہی انہوں نے ان سب کو افغانستان آنے کی دعوت دی۔

بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جس نے گذشتہ ماہ پاکستان میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی،  طرح بعض گروپوں کو افغان صدر اشرف غنی کے دور حکومت میں امریکی قیادت میں قائم  اتحاد کے زمانے میں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئیں۔ 

2018 میں جب صدر غنی کی حکومت عروج پر تھی، پاکستان کے جنوبی شہر کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے بی ایل اے کے رہنما اسلم بلوچ کو افغانستان کے جنوبی شہر قندھار کے ایک مضافاتی علاقے میں دھماکے میں مار دیا گیا۔ حملے میں بی ایل اے کے کئی دیگر ارکان بھی جان سے گئے۔

وہ کئی سال سے قندھار میں رہتے ہوئے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے، بالکل اسی طرح جیسے طالبان نے پاکستان میں رہتے ہوئے افغان نیشنل فورسز اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف برسوں تک کارروائیاں کیں۔

اس خطے کی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کو کئی دہائیوں تک مختلف قسم کے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

پہلے عسکریت پسندوں کو 1980 کی دہائی میں سرد جنگ کے عروج پر افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف لڑنے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مدد کے لیے استعمال کیا گیا۔

پاکستان نے انہیں انڈیا کے خلاف اور انڈیا نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ افغان گروپوں نے دوسرے افغان گروپوں سے لڑائی میں استعمال کیا۔

افغانستان اور پاکستان کے لوگ اس صورت حال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ متاثرہ افراد ان سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں جو افغانستان کے ساتھ ملتے ہیں۔

یہاں تشدد عام ہے اور دونوں ممالک کی معیشتیں انتہائی خراب ہیں۔

مسئلے کی پیچیدگی واضح ہے، خاص طور پر افغانستان میں موجود متعدد مسلح گروپوں کو دیکھ کر، اور یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔

ان گروپوں میں داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، اور برصغیر میں القاعدہ، لیکن ان کے علاوہ بھی کئی گروپ ہیں، جیسے کہ بلوچستان لبریشن آرمی، ازبکستان کی اسلامی تحریک، مشرقی ترکستان کی آزادی کی تحریک کے چینی اویغور، اور جماعت انصار اللہ۔

اس کے علاوہ، اسلامی جہاد گروپ، خطیبہ امام البخاری گروپ، جیش الفرسان، اور جماعت الاحرار بھی ہیں۔

یہ تمام گروپ، جن میں مزید دیگر بھی شامل ہیں، ان کا گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی تجزیاتی حمایت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا۔

یہ رپورٹ باقاعدگی سے جاری کی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ رپورٹ ان معلومات کا مجموعہ ہے جو اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے اکٹھی کر کے فراہم کیں۔

رپورٹ میں فراہم کردہ معلومات کی تصدیق کا دعویٰ نہیں کیا گیا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں سب سے بڑا مسلح گروپ ہے اور طالبان کی واپسی کے بعد سے یہ پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

اگست 2021 سے اگست 2024 کے درمیان تین سال میں پاکستان میں مسلح حملوں کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار پاکستانی سکیورٹی اہلکار، جن میں فوجی بھی شامل ہیں، جان سے گئے اور 1100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ اعداد و شمار آزاد اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز نے اکٹھے کیے۔

پہلا اچھا قدم

انسٹی ٹیوٹ کے بانی اور صدر محمد عامر رانا نے مجھے بتایا کہ افغان طالبان، پاکستان کی حکمت عملی سے سبق سیکھ رہے ہیں۔

وہ پاکستانی طالبان کو نظرانداز کر رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان مشکل میں ہے اور تشدد کو روکنے کے لیے اب تک کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں بنا سکا۔

آج کا سوال یہ ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے؟ ایک اچھا پہلا قدم ماضی کو تسلیم کرنا اور سمجھنا ہو گا۔

ماضی واضح طور پر یہ دکھاتا ہے کہ کوئی بھی الزام سے پاک نہیں اور ہر فریق نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلح افراد کا استعمال کیا ہے۔

اس پیچیدہ خطے میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ عالمی طاقتیں بھی اپنی ذمہ داری تسلیم کریں۔

بہرحال یہ امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) جس نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں انگریزی زبان سکھانے کے لیے پانچ کروڑ ڈالر خرچ کیے۔ مذہبی جذبات کو سابق سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا۔

انگریزی زبان اس طرح سکھائی گئی کہ ’آئی‘ سے انفیڈل (کافر، یعنی کمیونسٹ)۔ ’کے‘ سے کافر (کمیونسٹ) کو مارنے کے لیے کلاشنکوف اور ’جے‘ سے جہاد  جس میں کمیونسٹوں سے لڑنے کے لیے کلاشنکوف استعمال کی جاتی ہے۔

ماضی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملک یہ نہ سمجھے کہ وہ ایسے بلند مقام پر ہے جہاں سے وہ نہیں گر سکتا۔ دہائیوں کی جنگ کے بعد، مسئلے کوئی فوری حل نہیں  اور نہ ہی کوئی ایک ملک یا نظریہ اس کا جواب دے سکتا ہے۔

لیکن اس وقت جو افغان پالیسی امریکہ اور یورپ اپنائے ہوئے ہیں، وہ ماضی کی ناکام پالیسی کی نقل ہے، جو الگ تھلگ کرنے اور طویل فاصلے سے بات چیت پر مبنی ہے۔

 یہ پالیسی اس وقت کامیاب نہیں ہوئی تھی، اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ اب کامیاب ہو رہی ہے، بلکہ اس کے برعکس شواہد یہ بتاتے ہیں کہ حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

جب طالبان آخری بار حکومت میں تھے، تو دنیا کا جواب انہیں تنہا کرنا تھا۔ اس نے القاعدہ اور دیگر گروپوں کو پھلنے پھولنے اور سازشیں کرنے کا موقع فراہم کیا۔

اس کا نتیجہ ’نائن الیون‘ کے حملے تھے، جو امریکہ کے خلاف ہوئے جس نے تنہا کرنے کی حکمت عملی کی خامی کو واضح کیا اور یہ پالیسی ترک کر دی گئی۔

آج، جیسا کہ 1996-2001 کے دوران تھا، دھمکیاں، توہین، میٹھا بول اور انتباہ کی ملی جلی پالیسی بہت کم مثبت نتائج لائی۔

تین سال گزرنے کے بعد طالبان کے سب سے زیادہ سخت گیر عناصر سب سے طاقتور ہیں اور لگتا ہے کہ جتنا افغانستان کو تنہا کیا گیا وہ اتنا ہی یہ عناصر مضبوط ہوئے۔

یہ مسلح گروپوں کے لیے اچھا ثابت ہوا ہے، لیکن خواتین اور پورے خطے کے لیے برا ہے۔

میں یہ دوبارہ کہوں گی کہ اب وقت آ گیا ہے کہ سفارت کار، فوجی اہلکار نہیں، افغانستان واپس جائیں تاکہ ملک کے چار کروڑ لوگ یہ محسوس نہ کریں کہ انہیں چھوڑ دیا گیا ہے اور نہ ہی وہ تنہائی کا شکار ہوں۔

افغانستان میں افغانوں کے اپنے حل تلاش کرنے کے لیے انہیں بین الاقوامی برادی کی موجودگی کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جتنا وہ تنہا ہوں گے، اتنا ہی طالبان کے زیادہ رجعت پسند عناصر جن کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ ایک ہی جیسی سوچ کے مالک نہیں، اپنے کنٹرول سختی سے نافذ کر سکیں گے، جو کہ اس وقت ہو رہا ہے۔

یہ صورت حال افغان سرزمین کو مسلح گروپوں کے لیے بھی زیادہ قابل رسائی بنا دیتی ہے، جو بعض اوقات افغانوں کے لیے مدد کا واحد ذریعہ نظر آتے ہیں۔

افغانستان میں سفارت کاروں کی واپسی اور سفارت خانے کھولنے کے لیے طالبان کو تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں۔

کابل میں پہلے ہی 17 سفارت خانے کھلے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی وہاں موجود ہے اور اس کے باوجود کسی نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا۔

بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں موجود ہونا چاہیے تاکہ وہ افغانوں سے، دیہات اور شہروں میں، بات چیت کر سکے اور بہتر طور پر سمجھ سکیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔

انہیں ہی ان باتوں کے جوابات معلوم ہیں۔

طالبان کو تنہا کرنا طالبان کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا کہ یہ افغانستان کے چار کروڑ افغانوں اور پورے خطے کو متاثر کرتا ہے۔

نوٹ: اس تحریر کی مصنفہ کیتھی گینن ’آئی از فار انفیڈل‘ نامی کتاب کی مصنفہ اور طویل عرصے تک امریکی خبر رساں رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی پاکستان اور افغانستان میں نامہ نگار اور بیورو چیف رہ چکی ہیں۔ وہ سپان نیوز ایڈوائزری کونسل کی رکن ہیں۔ یہ سپان نیوز کا فیچر ہے جو پہلی بار آن لائن پلیٹ فارم کیتھی گینن سب سٹیک پر شائع ہوا۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر